البتہ حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی روایت جس میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعانے سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز قراردیا یہ روایت ضعیف ہے چونکہ اس کی سند میں ابراہیم بن ابی یحییٰ ضعیف ہیں ملاحظہ فرمائیں۔[1]
البتہ فی زمانہ ایسا کثرت سے ہونے لگا ہے کہ لوگ سَودا کرکے کچھ دنوں کے بعد انکار کردیتے ہیں جس سے بیچنے والے کا نقصان ہوتا ہے یا بیچنے والا ہی پیچھے(Back)ہوجاتا ہے جس سے خریدار کا نقصان ہوتا ہے،ہردو کو نقصان سے بچانے کے لیے معاشرے نے یہی بیعانہ والا معاملہ رکھا ہے جس سے کسی حد تک فریقین پلٹنے سے بچتے رہتے ہیں لیکن شریعت نےاسے حرام کیا ہےاُس میں ہمارے لیے قطعاً خیر نہیں ہو سکتی بندہ کے نزدیک اس سے بچاؤ کی صرف یہی صورت ہے کہ اگر بائع (Seller)کو مشتری (Purchaser) کی نیت پر شبہ ہو تو وہ اُس سے بیعانہ (Token Money)پر سُودا نہ کرے بلکہ پوری رقم لے کر چیز اس کے قبضے میں کر دے اور اگرمشتری(Purchaser)کو بائع (Seller)کے پلٹ جانے کا اندیشہ ہو تو وہ بھی سودے کے وقت پوری رقم دے کر چیز اپنے قبضے میں کر لے اور یہ ایک دوسرے کے شرسے بچاؤ کی بہترین شکل ہے۔(واللہ اعلم)
پرانی اور نئی کرنسی کے مابین قیمت کا فرق رکھنا
قدیم تحقیق یہ تھی کہ کرنسی نوٹ براہ راست ثمن نہیں بلکہ سونا اور چاندی جو اصل ثمن ہیں یہ اُس کی دستاویزات یا رسید اور سند کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
البتہ ان کو ثمن عرفی کہا جاتا ہے کیونکہ موجودہ زمانہ میں ان کی ماہیت اور حقیقت یکسر تبدیل ہوگئی ہے اور سونے چاندی کے ساتھ کرنسی نوٹ کا کوئی تعلق باقی
|