عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اور کفالت عامہ
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا وہ حکم نامہ نہایت اہم ہے جو انھوں نے اپنے گورنر عدی بن ارطاء رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا:
"انْظُرْ مَنْ قِبَلَكَ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ، قَدْ كَبِرَتْ سِنُّهُ، وَضَعُفَتْ قُوَّتُهُ، وَوَلَّتْ عَنْهُ الْمَكَاسِبُ، فَأَجْرِ عَلَيْهِ مِنْ."[1]
”اہل ذمہ(یہودو نصاریٰ) میں سے ہر ایسا فرد تلاش کرو جسے بڑھاپے نے آلیا ہو، اس کی قوت مضمحل ہوگئی ہو اور کمائی کے تمام ذرائع اس سے منہ موڑلیں، اس کے لیے مسلمانوں کے بیت المال سے اتنا مقرر کردو جو اس کے اصلاح حال کے لیے کافی ہو، اسی طرح اگر مسلمانوں میں سے کوئی غلام ہوتا تھا، جسے بڑھاپے نے آلیا ہو اس کی کمانے کی طاقت کمزور ہو گئی ہو اور آمدنی کے ذرائع بھی ختم ہو گئے ہوں، حالانکہ اس کے مالک، جس کے وہ ماتحت تھا پر لازم تھا کہ وہ اس کی پرورش کرتا رہتا حتی کہ موت ان دونوں کو علیحدہ کردیتی یا اس(مسلمان غلام) کو آزاد کردیا جاتا(اس کا رزق بھی بیت المال سے ایسے ہی مقرر کردو۔)“
|