2۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"وَقَدْ اتَّفَقَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ الْمُقْرِضَ مَتَى اشْتَرَطَ زِيَادَةً عَلَى قَرْضِهِ كَانَ ذَلِكَ حَرَامًا."[1]
”سب علماء اس بات پر متفق ہیں کہ قرض دینے والا جب اپنے قرض پر اضافے کی شرط لگائے تو یہ حرام ہوگا۔“
3۔ علامہ ماوردی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
"وَقَالَ الْمَاوَردِيُّ أَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى تَحْرِيمِ الرِّبَا وعليٰ أنَّه مِنَ الْكَبَائِرِ."[2]
سُود اور اس کے کبیرہ گناہ ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
اسلامی بینکاری پر تنقید کی وجوہات
اسلامی بینکوں پر تنقید کی متعدد وجوہات ہیں جو حسب ذیل ہیں:
1۔اسلامی نظریاتی کونسل جس کا قیام 1977ء میں صدرضیاء الحق مرحوم کے دور میں عمل میں آیا جس میں دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مولانا یوسف بنوی صاحب ، مولانا محمد تقی عثمانی صاحب، مولانا شمس الحق افغانی صاحب (جو مولانا بنوی کی وفات کے بعد شریک ہوئے) جناب مفتی سیاح الدین صاحب کا خیلوی اور بریلوی مکتبہ فکر سے مفتی محمد حسین نعیمی صاحب شریک ہوئے۔
اس کو نسل میں اہل حدیث اور شیعہ حضرات کی نمائندگی نہیں تھی۔اس کونسل کو جو سب سے بڑا اور بنیادی کام دیا گیا وہ یہ تھا کہ موجودہ بینکوں کو سُود سے
|