کے اندر ایک وفد نجران کے عیسائیوں کا بھی موجود تھا اور نجران کے عیسائیوں کے وفود کے ساتھ جو آپ کی طویل گفتگو ہوئی اس کے نتیجے میں وہ ایک باقاعدہ معاہدہ ترتیب پایا۔ اور اس معاہدہ کے بہت سارے اجزاء میں سے اور اس کے بہت سارے آرٹیکلز میں سے ایک جز اور آرٹیکل یہ بھی موجود تھا آپ اپنے ہاں سودی معاملات کو جاری وساری نہیں رکھ سکیں گے اور اگر ہمیں یہ اطلاع ملی کہ آپ اپنے دارالحرب کے اندر سودی نظام کو جاری وساری رکھے ہوئے ہیں تو پھر یہ ہمارا معاہدہ کالعدم تصور کیا جائے اور پھر نئے سرے سے اعلانِ جنگ تصور کیاجائے،اس سے آپ اندازہ لگائیے کہ قرآن مجید میں:
﴿فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ﴾[1]
کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ کہ ایک اسلامک اسٹیٹ کےکوڈ آف کنڈیکٹ کے اندر یہ بات شامل ہے کہ اس معاشرے کےاندر یا اس معاشرے سے باہر اگر کہیں سودی مفاسد موجود ہیں تو یہ ایک طرح سے کھلا اعلانِ جنگ ہے ان کے ساتھ یہ تعلقات اختیار نہیں کیے جاسکتے،سُودی،مفاسد سے بچنے کی صرف اسلامی معاشروں کو ہی ضرورت نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مفاد اس بات کے اندر ہے کہ ان کو اس سودی معیشت کے مفاسد سے نجات دلائی جائے،اس وقت دنیا کے اندر سب سےزیادہ مقروض ملک کا نام امریکہ ہے اگرآپ 1900ء سے لے کر آج1997ء تک کا ایک گراف پورے امریکہ کا دیکھتے چلے جائیں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ اس امریکہ کی معیشت کے اندر ہر سال جو ان کے راس المال جو انہوں نے اختیار کیا جو قرضے لیے ہیں ان قرضوں کی بنیاد پر سود بڑھتا چلا گیا ہے اور ہر سال وہ اپنی بجڑی پروویژن کے اندر اس سود کی ادائیگی کے لائق نہیں ہے اور جب تک یہ سودی معیشت کسی بھی ملک کےساتھ موجود ہے وہ اپنے
|