کہ اپنی ضرورتوں پر وہ دوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے ہیں۔وہ اپنی بھوک تو برداشت کر سکتے ہیں لیکن وہ ہمسائے کی بھوک کو برداشت نہیں کرتےاس لحاظ سے اگر آپ یہ دیکھیں کہ ایک معیشت کا تصور
﴿وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ﴾[1]
یہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا خرچ کیا جائے اپنی جائز ضروریات کے بعد جو کچھ ان کے پاس بچتا ہے اُسے معاشرے کی اور انسانیت کی فلاح کے لیے اُسے استعمال کریں۔
اور پھر اسلامی ریاست کے جو بنیادی فرائض گنوائے گئے ہیں ان فرائض کے اندر نماز کے بعد نظام زکوٰۃ کو پورے طور پر شامل کیا گیا ہے، پھر احکام میراث جو ہیں وہ جائیداد کے تعین کو حلال اور حرام کے حوالے سے جو پوری تعلیمات ہیں ان سے ایک معاشرہ پیدا ہوتا ہے یہ سُود تنہا کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اسلام نے معیشت کے اندر حلال اور حرام کی جو قیود ہمارے سامنے واضح کی ہیں معیشت کے اندر جو اتفاق کی حدود ہمارے سامنے واضح کی ہیں اور ہمارے اموال خواہ وہ نقود کی شکل میں ہوں ، دینار و درہم کی شکل میں سونے یا چاندی کی شکل میں ہوں، مال اور مویشی کی شکل میں، زرعی اجناس کی شکل میں،تجارتی اموال کی شکل میں یا آج کے زمانے میں صنعتی اموال کی شکل کے اندرموجود ہوں یہ سارے کے سارے ایک اسلامی ریاست میں اور اسلامی معیشت کے اندر ان کے لیے ایک باقاعدہ ضابطہ ہے ایک کوڈ ہے جن کے تحت یہ باقاعدہ استعمال ہونا اس لحاظ سے آج اگر کوئی طبقہ کوئی گروہ کوئی تحریک کوئی ریاست کوئی ادارہ کوئی انسٹیٹیوشن اگر یہ بات چاہتا ہے کہ اپنی معیشت کو سُودی معیشت کے مفاسد سے اور مظالم سے پاک کیا جائے تو اس کے سامنے وہ تدریج اور وہ ضابطہ اور وہ
|