پیش نظر رکھنا چاہیے کہ کسی معاشرے کوسُودی نظام سے سُودی معاشرے سے سُودی معیشت سے غیر سُودی معاشرہ اور غیر سُودی معیشت کی طرف لانےکے لیےکون کون سے اقدامات ایسے ہیں جو اس معاشرے کے اندر ذہنی انقلاب کے اعتبار سے اخلاقی اقدار اور روایات کے پیدا کرنے کے اعتبار سے وہاں پر پیدا کئے جانے چاہئیں، دوسری بات یہ کہ سُودجو ہے یہ وعظ و تبلیغ کی چیز نہیں ہے کہ جس کا جی چاہےاسے اختیارکرے اورجس کا جی چاہے اسے اختیار نہ کرے سُود کا مسئلہ یا معیشت کا مسئلہ جو ہے اسلامی فکر کے اعتبار سے یہ کوئی اختیاری مسئلہ نہیں، اسلامی ریاست کے جو ذمہ داران ہیں وہ پوری کمٹمنٹ کے ساتھ ایک معاشرے کو قائم کریں جس معاشرے کے اندر یہ غیر سُودی معیشت جو ہے یہ پورےطور پر ابھرتی چلی جائے تاکہ اس کے نتیجے میں ایک نظام اخلاق جو ہے وہ پیدا ہوتا چلا جائے، سُودی معیشت کے حوالے سے جو اخلاقیات دنیا کے اندر پیدا ہوتے ہیں ان کے اندر ایک شقاوت ایک تنگ دلی ایک بخل ایک کنجوسی دوسروں کی ضروریات سے فائدہ اُٹھانا اور یہ سارے عناصر جو ہیں اور یہ سارے مفاسد اور یہ سارے رزائل جو ہیں یہ اُس کے ساتھ وابستہ ہیں اور غیر سُودی معیشت جو ہے اس کے بطن میں اور اس کے مزاج میں یہ بات شامل ہے کہ ایثار کی بات، ہمدردی کی بات، انفاق کی بات اور دوسروں کے ساتھ تعاون کی بات یہ ساری کی ساری صورتحال جو ہے یہ اس معیشت کے ساتھ وابستہ ہے یہی بات ہے کہ 23سال تک اس معاشرے کی تربیت انفاق کے اعتبار سے کی گئی اپنی ضروریات کی نسبت دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دینا جو ہے یہ قرآنی احکامات میں بتایا گیا
﴿وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾[1]
|