اس لحاظ سے ہم جب یہ دیکھتے ہیں کہ سودی معیشت کی یہ پوری صورتحال جو ہے عرب کی سرزمین بھی اس میں لتھڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے اورعرب کے لوگ قرآن مجید کی آیات کے پہلے مخاطب تھے،لہٰذا واضح ہے کہ یہ جو آیات ان کے سامنے پیش کی جارہی ہیں یہ آیات کسی عجمی معاشرے کے لیے نہیں پوری کائنات کے لیے تھیں لیکن اس کے اولین مخاطب جو تھے وہ خود عرب کے لوگ تھے اور عرب کے لوگ سود مفرد کے اور سود مرکب کے اس پورے نظام کے اندر موجود تھے ہمارے ہاں ایک عذر یہ پیش کیا جاتاہے کہ سود جومہاجنی طرز کا ہے جو یوزری کے لیے موجود ہے شاید اس کے اندر تو کوئی خرابی موجود ہے اور وہ ایک ظالمانہ نظام ہے لیکن کاروبار زندگی کو چلانے کے لیے تجارتی اموال کو ریگولیٹ کرنے کے لیے گردش زر کو برقرار رکھنے کے لیے تو اموال کی ضرورت ہوگی اور اس کو خرچ کرنے کی ضرورت ہوگی یہ معاملہ بھی ان کے ہاں درپیش تھا بلکہ یہ بات واضح رہے کہ یہ آیات اور ان کاپس منظر اور ان کی شانِ نزول جو ہے یہ یوزری یا مہاجنی یا ذاتی ضرورتوں والے قرضے کے لیے نہیں ہے بلکہ ان آیات کا اصل مصداق اسی تجارتی اموال کے لیے ہیں جن کے لیے عرب کے لوگ ان کی جانچ ٹاپس کمپنیز بھی تھیں،عرب کے لوگوں کےاندر باقاعدہ یہ صورتحال موجود تھی،کچھ سلیپنگ پارٹنر ہوتے تھے وہ اپنے سرمایہ جو تھے جانچ ٹاپس کمپنی کی صورت میں دیتے تھے اور ان کے کچھ لوگ جو تھے وہ اس تجارت کو کرتے تھے اور اس کے منافع کو آخر میں تقسیم کیا کرتے تھے اس اعتبار سے یہ سمجھنا کہ شاید چودہ صدیوں پہلے انسانیت کسی معاشی تصور سے یامعاشی ماحول سے اور معاشی احتیاجات سے یا معاشی ضروریات سے بے خبر تھی ایسا قطعاً نہیں ہے وہ معاشرہ پورے،طور پر اس معاشی صورتحال کے اندر موجود تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ایسے لوگ موجود تھے کہ جوتجارتی اموال کے اعتبار سے اپنے زمانے کے ممتاز لوگوں میں سے تھے جس طرح سے ہمارے ہاں ملٹی نیشنل کا
|