Maktaba Wahhabi

345 - 545
علامہ اقبال نے اسی فلسفہ کو اسرارخودی کے اندر پیش کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ ؎ کس نہ باشد درجہاں محتاج کس نکتہ شرع مبینی نیست بس شرع مبین کا آخری نکتہ یہ ہے کہ کوئی انسان اس دنیا میں دوسرے انسان کا جو محتاج رہا ہے اس اعتبار سے” کس نہ باشد درجہاں محتاج کس“یہ اسلامی معیشت کا اتنا بڑا اسلوب ہے کہ جس کو قرآن مجید نے اپنے حوالے سے یہاں پر پیش کیا ہے،یہاں پر ایک اور بات کو ذہن میں رکھا جانا چاہیے کہ ہمارے ہاں جدید زمانے کےاندر وہ افکار پھیل گئے ہیں،جدید معاشرت کے اندر گذشتہ کئی صدیوں سے جوہمارے ہاں افکار کا تصور ہے وہ مغرب کے حوالے سے مشرق کی دنیا کے اُوپر آتا چلا گیا،لیکن ہم اگر غور کریں تو چودہ سو سال پہلے کا جو اسلامی معاشرہ جو ہمارے سامنے ہے اس اسلامی معاشرے کے جو امتیازات ہمارے سامنے ہیں اس معاشرے کےاندر بھی تجارت موجود تھی اس معاشرے کےاندر بھی بین الاقوامی منڈیوں کے اندر لوگوں کو آنا جانا موجود تھا اور ہمیں یہ علم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشی اسوہ جو ہم دیکھتے ہیں تو رسالت سے قبل بھی آپ نظام تجارت کے اندر موجود تھے اور یہ ہمیں علم ہے کہ آپ بصرہ میں اور موصل میں اور بحرین میں اور مختلف قسم کی بین الاقوامی منڈیاں جو حجاز کے اردگرد موجود تھیں وہاں ادارے کی تجارت اور خدمت کے طور پر آپ اسکے اندر شامل رہے اس لحا ظ سے تجارتی اموال کا لین دین اور سودی معیشت کی صورتحال جو ہے یہ تو آج کے زمانے کےساتھ یا جدید زمانے کے ساتھ وابستہ نہیں ہے بلکہ انسانیت کے ہر عہد کے اندر اور تاریخ کے ہر دور کے اندر یہ معاشی مسئلہ اپنے اپنے احوال اور اپنے اپنے تاریخی تناطر کے ساتھ ہمارے سامنے موجود رہا اور عرب کے قریش جو تھے وہ سودکے اس ظالمانہ نظام کے اندر لتھڑے ہوئے تھے یثرب کے اندر جو یہود تھے وہ بھی معاشی صورتحال کے اندر سود کی اس ظالمانہ کاروائی کے اندر پورے طور پر ہمیں شریک دکھائی دیتے ہیں
Flag Counter