میں انھوں نے جم کر تعلیم حاصل کی اور اس کے نصاب کے مطابق اولیٰ ثانوی سے لے کر اولیٰ کا (؟؟؟)تک مختلف اساتذہ سے استفادہ کیا۔ ان فاضل اساتذہ میں مولانا عبدالرحمٰن عظیمی، قاری نعیم الحق، مولانا خلیق الرحمٰن لکھوی، مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا سعید مجتبیٰ سعیدی، حافظ عبدالرشید اظہر حافظ عبدالرشید خلیق، مولانا محمد رمضان، حافظ عبدالرحمٰن مدنی اور مولانا عبدالحی انصاری شامل تھے۔ اس دوران 1985ءمیں لاہور بورڈسے میٹرک کا امتحان پرائیویٹ طالب علم کے طور پر اول ڈویژن میں پاس کیا۔ رابعہ ثانوی کے امتحان میں مدرسے میں اول درجے پر آئے تو مدرسے کے اصحاب انتظام کے لیے ان کے کاغذات مدینہ یونیورسٹی میں بھیجے اور اللہ نے کرم فرمایا کہ وہاں ان کا داخلہ ہوگیا۔ یہ 1986ء کی بات ہے۔ 1986ءسے 1990ءتک چار سال وہ مدینہ یونیورسٹی کے کلیۃ الحدیث میں زیرِ تعلیم رہے اس اثناء میں جن اساتذہ گرامی سے استفادہ کیا، ان میں مندرجہ ذیل حضرات شامل ہیں۔ 1۔۔۔شیخ عمر حسن فلاتہ: مدرس مسجد نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم)ان سے تدریب الراوی جزثانی پڑھی۔ 2۔۔۔ڈاکٹر انیس الرحمٰن : ان کا وطنی تعلق انڈونیشیا سے ہے۔ ان سے تدریب الراوی اول پڑھی۔ 3۔۔۔ڈاکٹر ضیاء الرحمٰن اعظمی: ان سے نیل الاوطارکا ایک حصہ پڑھا۔ 4۔۔۔ڈاکٹر عبدلصمد بکر: ان کے پاس ”الوضع فی الحدیث “کا مضمون تھا۔ 5۔۔۔قاری محمد ایوب : مسجد نبوی کے سابق امام۔ ان سے تفسیر فتح القدیر کا درس لیا۔ 6۔۔۔شیخ عبدالعزیز عبداللطیف : ان سے جرح و تعدیل کے موضوع پر استفادہ کیا۔ ان حضرات کے علاوہ مدینہ یونیورسٹی کے مشہور محدث علامہ شیخ حماد انصاری کے گھر جا کر ان کے مکتبے میں حصول ِفیض کرتے رہے۔ مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد لاہور آئے اور 1991ءسے 1994ءکے آغاز تک مدرسہ رحمانیہ میں خدمت تدریس سر انجام دیتے رہے۔ اب ان کاکاروان حیات ایک اور موڑ کاٹتا اور ایک نئی منزل میں داخل ہوتا ہے۔ مئی 1994ءکا واقعہ ہے کہ کویت کی وزارت اوقاف نے انھیں کویت کا ویزا بھیجا اور یہ کویت پہنچے۔ وہاں انھیں تحفیظ القرآن کی ذمہ داری سوپنی گئی۔ یہ نہایت بابرکت ذمہ داری تھی۔اللہ تعالیٰ کے کلام کو حفظ کرانا اور اس کے الفاظ و حروف کو لوگوں کے سینوں میں محفوظ کرانے کا اہتمام کرنا ایک عظیم کام تھا جو حافظ محمد اسحاق زاہد کے سپرد کیا گیا۔ چھ سال وہ اس اہم خدمت پر مامور رہے۔ پھر انھیں امامت |