Maktaba Wahhabi

480 - 665
قرآن ہی کو اپناؤ، جو اس میں حلال ہے اسے حلال جانو اور جو اس میں حرام ہے اسے حرام سمجھو، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں کو حرام(وحلال) قرار دیا ہے اسی طرح ہے گویا اللہ نےحرام وحلال قراردیا ہے۔“ مولانا محمد ابراہیم یہ منظر دیکھ کر اور احادیث سناکر، باپ کے مال سے لا تعلق ہوکر واپس چلے آئے۔مولانا ابراہیم قرآن کے حافظ تھے۔نیز اپنے دور کے ماہر طبیب تھے اورطبابت ہی ان کا ذریعہ ٔ معاش تھا۔تعلیم وتدریس، امامت وخطابت اور وعظ وتبلیغ کے فرائض فی سبیل اللہ انجام دیتے تھے۔انھوں نے 20۔ذیقعدہ 337ھ(17۔اگست 1919ء) کو جلال پور پیر والا میں وفات پائی۔ ان کی تبلیغ سے بہت لوگ متاثر ہوئے اور بے شمار لوگوں نے علم دین حاصل کیا اور عامل حدیث ہوئے۔ان کے شاگردوں نے بھی اشاعت دین کے لیے بہت تگ ودود کی۔رحمہم اللہ تعالیٰ مولانا محمد ابراہیم چکڑالوی کے بیٹے مولانا محمد اسماعیل تھے۔ یہ بھی عالم وفاضل تھے اور دعوت وارشاد میں مشغول رہتے تھے۔انجمن اہلحدیث جلال پور پیر والا کے خزانچی تھے۔انھوں نے 23 مارچ 1944ء کوسفر آخرت اختیار کیا۔ مولانا محمد اسماعیل کےتین بیٹے تھے۔ان کا شمار بھی علمائے دین میں ہوتا تھا۔[1] مولانا محمد رفیق اثری کی تصانیف میں مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ متعدد رسائل بھی شامل ہیں جو کئی دفعہ چھپ چکے ہیں۔ 1۔جہاد اور ہمارے فرائض،۔2۔اہلحدیث کون؟۔3۔فضائل ومسائل رمضان المبارک۔4۔مسائل قربانی،۔5۔نماز پڑھنے کا مسنون طریقہ،۔6۔جنازہ پڑھنے کا طریقہ،۔7۔فقہاہت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ۔8۔مقام معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ مولانا اثری نے السیف المسلول کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ آخر میں یہ عرض ہے کہ میں نے اپنی کتاب”کاروانِ سلف“ میں حضرت مولانا سلطان محمود مرحوم ومغفور پر طویل مضمون لکھا ہے۔اس میں ان کے چند معروف تلامذہ کا مختصر الفاظ میں تعارف کرایا ہے، جن میں سب سے پہلے مولانا محمد رفیق اثری کا اسم گرامی آتا ہے۔میں نے لکھا تھا کہ ”مولانا اثری کچھ عرصہ اوکاڑہ کی جامعہ محمدیہ میں بھی فریضہ تدریس انجام دیتے رہے ہیں۔“[2] لیکن مولانا اثری نے بذریعہ خط مجھے اطلاع دی کہ وہ کبھی بھی جامعہ محمدیہ سے بطور مدرس منسلک نہیں رہے۔میں اپنی اس غلطی پر معذرت خواہ ہوں۔مگر یہ عجیب بات ہے کہ ان کے انکار کے باوجود
Flag Counter