Maktaba Wahhabi

473 - 665
1948؁ءمیں میں بھی مرکزی جمعیت اہل حدیث، مغربی پاکستان کے ناظم دفتر کی حیثیت سے لاہور آگیا تھا اور جمعیت کا دفتر دارالعلوم تقویۃ الاسلام کی بلڈنگ میں تھا، حافظ عبدالرحمٰن گوہڑوی بھی یہی تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس زمانے میں میرے ان سے تعلقات بہت بڑھ گئے تھے اور بسا اوقات سلسلہ گفتگو کافی دیر جاری رہتا تھا، 1951؁ءمیں مرکزی جمعیت کی رکن سازی کاکام شروع ہوا تو حافظ عبدالرحمٰن گوہڑوی نےمیری بہت مدد کی، دوسرے طلباء نے بھی کی، لیکن ان سطور میں صرف حافظ عبدالرحمن گوہڑوی کا ذکر مقصود ہے۔ طویل مدت سے مولانا عطاء اللہ صاحب کے دل میں یہ جذبہ کار فرما تھا کہ اپنا مکتبہ قائم کر کے اپنے ذوق کے مطابق کتابوں کی نشر واشاعت کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے 1954؁ء میں مکتبہ سلفیہ کے نام سے لاہور کے شیش محل روڈ پر مکتبہ قائم کر لیا اور حافظ عبدالرحمن گوہڑوی کو اپنے ساتھ رکھا۔ مولانامرحوم کو ان کی صلاحیتوں سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کام میں وہ ان کا ساتھ دیں گے اور کام ان کی تمنا کے مطابق صحیح طریقے سے چلتا رہے گا۔آگے چل کر نشر واشاعت کے سلسلے نے جو رخ اختیار کیا اور آہستہ آہستہ کام کی رفتار آگے بڑھی تو حافظ صاحب کی صلاحیتوں کے بارے میں انھوں نے جو اندازہ لگایا تھا وہ صحیح ثابت ہوا۔مولانا کے نزدیک وہ امین بھی تھے ذہن بھی تھے فہیم بھی تھے اور مکتبے کی طرف سے وہ جس قسم کی کتابیں شائع کرنا چاہتے تھے، اس میں ان کے مخلص معاون بھی تھا۔ چنانچہ تھوڑے عرصے میں مکتبہ سلفیہ کی طرف سے جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں۔ان میں حسب ذیل کتابیں خاص اہمیت کی حامل ہیں جو بے حد مقبول ہوئیں۔ حيات امام احمد بن حنبل رحمة اللّٰه عليه: مشہور مصری مصنف ابو زہرہ کی ضخیم کتاب کا ترجمہ جو رئیس احمد جعفری مرحوم نے کیا۔ حيات امام ابوحنيفه رحمة اللّٰه عليه: یہ بھی اسی مصنف کی اُردو کتاب کا ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ پرو فیسر غلام احمد حریری نے کیا۔ ديوان حماسه :ترجمہ مع شرح (از مولانا محمد اسحاق حسین خاں والا) التعليقات السلفيه علي النسائي :از حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ احسن التفاسير:از سیدڈپٹی احمد حسن دہلوی رحمۃا للہ علیہ یہ تفسیر سات ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے اور ہزاروں صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔حافظ عبدالرحمٰن گوہڑوی نے بڑی محنت اور تن دہی سے اس کی پانچ جلدوں کی تخریج کی۔ التعليقات النسائي :کی انھوں نے بے حد محنت سے دو دفعہ پروف ریڈنگ کی۔حافظ صاحب ممدوح نہ مدرس تھے نہ مصنف لیکن تخریج کرتے کرتے کتب حدیث سے انھیں اس قدر تعلق
Flag Counter