Maktaba Wahhabi

458 - 665
نے بڑی توجہ سے علاج کیا لیکن افاقہ نہ ہوا۔ان کی تشخیص کے مطابق وہ معدے کی خرابی اور خون کی کمی کا شکار ہوگئے تھے۔اس کا علاج ان کے نزدیک راولپنڈی کے فوجی ہسپتال(سی ایم ایچ) میں ہوسکتا تھا۔چنانچہ سکردو کے ڈسٹرکٹ ہسپتال سے نکال کر انھیں راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں لایا گیا۔ایک مہینہ اس ہسپتال میں داخل رہے اور باقاعدگی سے علاج ہوتا رہا لیکن روزبروز مرض بڑھتاگیا۔ پھر غواڑی لائےگئے۔معالجوں نے پوری توجہ سے علاج کرنا ہی تھا اور کیا بھی، لیکن علماء وطلباء اور دیگر حضرات نے بھی بیماری کے دنوں میں ان کی بے حد خدمت کی۔ آخر وقت ِ موعود آگیا جو ہرشخص پر آتا ہے۔31دسمبر 2000ء کوشب کے ساڑھے آٹھ بجے کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہوگئے اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اناللّٰه وانا الیہ راجعون سخت سردی کے باوجود کثیر تعداد میں لوگوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔نماز جنازہ نماز ظہر کے بعد بلتستان کے مشہور عالم مولانا ثناءاللہ سالک نے پڑھائی۔ یکم جنوری 2001ء کو ان کی وصیت کے مطابق انھیں موضع غواڑی کے قبرستان میں دفن کردیا گیا۔ اللّٰه م اكرم نزله ووسع مدخله وادخله جنت الفردوس انهوں نے پچاس برس کی عمر میں 1975ءمیں شادی کی تھی۔شادی کے پچیس برس بعد ان کی وفات ہوئی۔لیکن وہ اولاد سے محروم رہے۔ وہ نہایت پاکیزہ فطرت عالم دین تھے۔اسی لیے دم دعا کرانے والے لوگ اچھی خاصی تعداد میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔اس کے لیے انھوں نے نماز عصر کے بعد کا وقت مقرر کررکھاتھا۔ غالباً وہ علاقہ بلتستان کے واحد ندوی تھے۔
Flag Counter