Maktaba Wahhabi

294 - 665
کچھ معلومات مل سکیں۔البتہ جو کچھ میرے علم میں ہے، وہ پیش خدمت کرتا ہوں۔ مولانا عطاء اللہ لکھوی استاد پنجاب سادہ زندگی۔۔۔۔۔سادہ لباس۔۔۔۔سادگی ک پیکر 1۔تاریخ ولادت نا معلوم۔اندازاً والد رحمۃ اللہ علیہ کے لگ بھگ 2۔بنی بارک اللہ 3۔حصول ِ علم کے لیے گھر سے نکلے۔شاہی مسجد لاہور میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔اساتذہ کے نام معلوم نہیں۔ پھر یو پی۔سی پی کی جانب نکل کھڑے ہوئے اس زمانے میں ریل گاڑی نہیں تھی۔شیر شاہ صوری کی جنرل کچی شاہراہ چلتی تھی۔جس پر ٹرام چلتی تھی۔بعض گھوڑوں والی بگھیاں چلتی تھیں۔لمبا سفر کیا۔سالہا سال گھر سے دور رہے۔گھر والے مایوس ہوچکے تھے کہ اچانک گاؤں پہنچ گئے۔پنجابی بھول چکے تھے۔لباس اور زبان تبدیل ہوچکے تھے۔سب خاندان کے لوگوں کے لیے دوبارہ زندہ ہوگئے۔اردو بولتے اور سب لوگ متعجب ہوتے۔پانی پتی حفاظ کے لہجہ میں قرآن پڑھتے اور لوگوں کو محفوظ فرماتے۔ تلامذہ علماء 1۔مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمۃ اللہ علیہ 2۔حافظ عبداللہ صاحب بڈھیمالوی غفر اللہ لہ 3۔حافظ احمداللہ چھتوی طال ظلہ، 4۔حافظ عبدالرحمٰن صافوی مرحوم هذا ما عندي واللّٰه اعلم فارغ التحصیل ہونے کے بعد مولانا عطاء اللہ لکھوی کی شادی مفسرقرآن حضرت حافظ محمد لکھوی کی صاحب زادی رقیہ بی بی سے ہوئی۔اورمولانا ممدوح نے اسی مدرسہ محمدیہ میں پڑھانا شروع کیا جو حضرت حافظ محمد لکھوی نے اپنے گاؤں لکھو کے میں قائم کیا تھا اور جس کی مسند درس پر ان کے والد عالی قدر حضرت مولانا عبدالقادر لکھوی طویل مدت سے متمکن تھے۔اب یہ دونوں باپ بیٹا(مولانا عبدالقادر لکھوی اور مولانا عطاء اللہ لکھوی) مدرسہ محمدیہ میں طلباء کو تعلیم دینے میں مصروف تھے۔ لکھوی علمائے کرام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خصوصیت ودیعت فرمائی گئی تھی کہ وہ تمام درسی علوم متداولہ میں عبور رکھتے تھے اور ان کی تدریس کی انھیں مہارت حاصل تھی۔حضرت مولانا عطاء اللہ لکھوی خاص طورپر اس صفت سے متصف تھے۔بے حد متواضع، نہایت منکسر، حسن اخلاق کا
Flag Counter