Maktaba Wahhabi

284 - 665
زندگی کا اصل مقصد تھا۔ چنانچہ ابقاء المنن (صفحہ 54)میں تحریر فرماتے ہیں۔ میرا اگر بس چلتا تو میں یہ نیت رکھتا ہوں کہ نہ کسی کتاب کو جو مخالف کتاب اللہ ہوتی روئے زمین پر باقی رکھتا، نہ کسی بدعت کو جو متصادم سنت ہوتی، باقی چھوڑتا اور نہ کسی فن کو جہاراً اولیلاً ونہاراً عمل میں آنے دیتا۔۔۔ اور اگر ایسا وقوع میں آتا تو حدود شرع سے اس کا تدارک کرتا۔ چند واردین بھوپال علمائے کرام پہلے بتایا جا چکا ہے کہ نواب صاحب نے اپنے عہد کے بہت سے اہل علم کو بھوپال آنے کی دعوت دی اور وہ وہاں تشریف لائے اور متعدد اصحاب فضل بھوپال کی علمی فضا کا شہرہ سن کر خود ہی وہاں تشریف لے گئے اور انھوں نے اس ریاست میں بے پناہ خدمات سر انجام دیں۔ ان حضرات کی طویل فہرست میں چند بزرگان ذی مکرمت کے اسمائے گرامی یہ ہیں: شیخ حسین محسن یمانی، (متوفی 1327؁ ھ)مولانا سید ذوالفقار احمد نقوی (1340؁ ھ)شیخ محمد بن حسین انصاری یمانی (متوفی1344؁ ھ)مولانا محمد بشیر سہسوانی (متوفی 1323؁ ھ)سید حسین شاہ واصف بخاری (متوفی 1285؁ ھ)مولانا عبدالباری سہسوانی (متوفی 1303؁ ھ)مولوی صابر حسین صبا سہسوانی (متوفی1313؁ ھ)مولانا یوسف علی لکھنوی (متوفی 1309؁ ھ)مولانا سلامت اللہ جیراجپوری (متوفی 30ربیع الاول 1322؁ ھ مطابق 15۔جون 1904؁ ء) ان حضرات میں سے صرف مولانا محمد بشیر سہسوانی نے جمادی الاخریٰ 1323؁ ھ کو دہلی میں وفات پائی۔ باقی تمام حضرات بھوپال میں فوت ہوئے اور وہیں دفن کیے گئے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات وارد بھوپال ہوئے اور پھر وہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ بھوپال کی موجودہ حالت ڈاکٹر رضیہ حامد کی کتاب (نواب صدیق حسن خاں) سے پتا چلتا ہے کہ اب بھوپال کو اہل علم کے خوبصورت مرکز کی حیثیت حاصل ہے اور وہاں متعدد لائبریریاں قائم ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی دینی تعلیم کے لیے مدرسے جاری ہیں اور مسجدیں نمازیوں اور مصلحین و متعلمین سے بارونق ہیں۔ آخری گزارش نواب صاحب برصغیر کے بہت بڑے مفسر، بہت بڑے محدث، بہت بڑے مصنف، بہت بڑے محقق، بہت بڑے مؤرخ، بہت بڑے ہمدرد خلائق اور بہت بڑے مبلغ اسلام تھے۔ ان کے متعلق بہت کچھ لکھنا چاہیے اور بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے۔ اس مضمون میں ان کی خد مات گونا گوں کے
Flag Counter