Maktaba Wahhabi

28 - 665
سید ہیں۔آپ کے والد کا اسم گرامی سید جواد علی تھا جو فارسی زبان میں بالخصوص مہارت رکھتے تھے۔ میاں صاحب کا خاندان اس نواح میں علم وفضل میں بھی ممتاز تھا اوردنیوی لحاظ سے بھی اسے احترام کی نظر سے دیکھا جاتاتھا۔چھٹے مغل حکمران اورنگ زیب عالمگیر کےعہد سے اس خاندان کے بعض افراد خدمت قضا پر مامور چلے آرہے تھے۔عہدہ قضا کی دوسندیں اس خاندان کے بعض افراد کے پاس موجود تھیں۔ایک بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی عطا کردہ سند، جس میں ان کو سورج گڑھ اوربعض دیگر مقامات کے منصب قضا پر فائز کیا گیا تھا اور ایک سند شاہ عالم بادشاہ کی طرف سے جاری کی گئی تھی، اس میں بھی سورج گڑھ اور صوبہ بہار کے بعض دوسرے مقامات کے عہدہ قضا پر متمکن ہونے کا فرمان مرقوم تھا۔ حصول ِعلم کا شوق ہم میاں صاحب کے عہد طفولیت پرنگاہ ڈالتے ہیں تو اس عہد کا کوئی خاص واقعہ قابل ذکر معلوم نہیں ہوتا۔اس دور میں ان کا اصل مشغلہ کھیل کود، گھڑ سواری، جمناسٹک اور بھاگ دوڑتھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی صحت بہت اچھی تھی، قویٰ مضبوط تھے۔جفاکشی، محنت، زندہ دلی، دوسروں کی خدمت اور صبر وضبط وغیرہ امور ان کے لوازم حیات قرارپاگئے تھے۔پڑھنے لکھنے کی طرف کوئی دھیان نہ تھا۔پندرہ سولہ سال کا ابتدائی زمانہ اسی طرح گزرگیا۔ اب سوال یہ ہے کہ تحصیل علم کی طرف کیوں میلان ہوااورکب ہوا۔۔۔؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ میاں صاحب کے والد ماجد کی خدمت میں ایک پڑھا لکھا برہمن آیا کرتاتھا۔ایک دن اس نے میاں صاحب سے کہا:”میاں صاحب زادے؟تم اتنے بڑے ہوگئے ہو اور پڑھنے لکھنے سے محروم ہو۔تمھیں پتہ نہیں کہ تمہارے خاندان کے تمام لوگ مولوی ہیں اور تم جاہل ہو۔“ برہمن کی اس مختصر اور سیدھی بات نے دل پراتنا اثر کیا کہ اسی آن دل طلب علم کی طرف مائل ہوگیا اور اس جذبے میں اس قدر تیزی آئی کہ پہلی تمام حرکات سے دست کش ہوگئے اور حصول ِتعلیم کے شوق نے ذہن پر پوری طرح قبضہ کرلیا۔پہلے والد ماجد سے فارسی پڑھی جنھیں اس علم میں مہارت حاصل تھی۔تھوڑے عرصے میں یہ مرحلہ طے ہوگیا تو عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھنا شروع کردیں۔ اس وقت وہ عمر عزیز کے سولہویں سال سے نکل کر سترھویں سال میں قدم رکھ رہے تھے اور پڑھنے کے شوق میں لمحہ بہ لمحہ اضافہ ہورہا تھا اور کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس شوق کی تکمیل کے
Flag Counter