سے علیحدگی اختیار کر کے1708ء میں مالوہ آیا اور ایک جاگیر اجارے پر حاصل کی۔ پھر اپنی بہادری اور فراست سے اس کے آس پاس کے علاقے پر قابض ہوگیا۔اس نے ایک جنگ میں دشمن کے خلاف رانی کملاپتی کی مدد کی تھی۔جس کے صلے میں رانی نے اسے بھوجیال(بھوپال)کا علاقہ عطا کیا۔اس طرح 1722ءمیں وسط ہند میں ایک مسلم ریاست کا قیام عمل میں آیا اور اس کے بعد اسے نواب دوست محمد خاں کہا جانے لگا۔ دوست محمد خاں اہل علم کا قدردان تھا، خود بھی انشا پرداز اور فارسی ادب میں دستگاہ رکھتا تھا اور بہت سے اصحاب علم اس نے اپنے دربار میں جمع کر لیے تھے، جن میں مسلمان بھی تھے اور ہندو بھی۔ افغانستان سے بھی اس نے اپنے اعزہ واقارب اور علما وفضلا کو بلالیا تھا، جنھیں بھوپال میں آباد کیا، انھیں جاگیریں دیں اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ 1726ءمیں دوست محمد کا انتقال ہو گیا تو ریاست بھوپال کی عنان حکومت اس کے بیٹے نواب یار محمد خاں نے سنبھالی یار محمد خاں اس سے قبل چار سال حیدر آباد (دکن) رہا تھا، جہاں اس نے بہتر طریقے سے علمی اور انتظامی تربیت حاصل کی تھی اور حیدر آباد سے متعدد اہل علم کو اپنے ساتھ بھوپال لے گیا تھا۔اس کا دور حکمرانی قابل تعریف تھا۔ اس نے 1742ءمیں وفات پائی۔ اب بھوپال کا تیسرا حکمران یار محمد خاں کے بیٹے نواب فیض محمد خاں کو بنایا گیا۔ تخت نشینی کے وقت اس کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔ ریاست میں ایسی خانہ جنگی شروع ہوئی کہ ریاست کا بچنا مشکل ہوگیا۔فیض محمد خاں کی سوتیلی ماں ماجی ممولا بڑی عقل مند اور مردم شناس عورت تھی۔ایک برہمن زادہ اس کا پرور وہ تھا جو مسلمان ہو گیا تھا۔ ریاست کا قلم دانِ وزارت اس کے سپرد کیا گیا اور اسے دیوان چھوٹے خاں کہا جانے لگا۔اس نے بڑے تدبر کے ساتھ حکومت کے نظم و نسق کو چلایا اور ریاست افراتفری سے محفوظ ہوگئی۔1777ءمیں فیض محمد خاں انتقال کر گیا۔ وہ بذات خود بہتر کردار کا حامل تھا، لیکن وہ ایسی پریشانیوں میں گھرا کہ کوئی قابل ذکر کام نہ کر سکا۔ فیض محمد خاں کی وفات کے بعد اس کے بیٹے نواب حیات محمد خاں کو تخت حکومت پر بٹھا یا گیا۔اس کے وزیر دیوان چھوٹے خاں نے بڑی خوش اسلوبی سے حکومت کے نظام کو آگے بڑھایا۔ مختلف مقامات میں مسجدیں تعمیر کرائیں۔ مدارس قائم کیے اور علما کو ان کے مقام و مرتبے کے مطابق اعزازات سے نوازا۔ سید ذوالفقار احمد نقوی اپنی کتاب ”تذکرہ قضاۃ بھوپال “میں لکھتے ہیں: ”چھوٹےخاں نے شاہ عبدالعزیز صاحب کی خدمت میں بایں مضمون عریضہ لکھا کہ آپ بھوپال تشریف لائیں۔ بارہ ہزار کی جاگیر حاضر ہے۔ چند معتبر ادیبوں کو یہ خط اور |