Maktaba Wahhabi

253 - 665
صاحب کو دہلی خط لکھا جس میں کسی سلجھے ہوئے بڑے عالم کو بنگلور بھیجنے کی درخواست کی گئی تھی۔حضرت میاں صاحب نے مولانا فقیر اللہ مدراسی کو حکم دیا اور وہ بنگلور پہنچ گئےمولانا فقیر اللہ صاحب نے اس علاقے میں مدلل اسلوب سے وعظ وتقریر کا آغاز کیا، اور مولانا محمد سلطان احمد بریلوی سے ان کے مناظرے بھی ہوئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا محمد سلطان احمد کی اہلحدیث کے خلاف ہنگامہ آرائی ختم ہوگئی اور مولانا فقیر اللہ کے مواعظ سے متاثر ہوکر بہت سےلوگ مسلک اہلحدیث سے وابستہ ہوگئے۔پھر بنگلور کے لوگوں نے مولانا فقیر اللہ کو دہلی نہیں جانے دیا اور اصرار کرکے ان کو وہی رکھ لیا۔مولانا نے وہاں”مدرسہ نصرۃ الاسلام“ کے نام سے ایک تدریسی ادارہ قائم کیا اور درس وتدریس میں مشغول ہوگئے۔ایک عرصے تک وہ بنگلور رہے اور ان کی تقریری اور تدریسی مساعی سے بے شمار لوگوں نے فیض حاصل کیا اور ان کے تبحر علمی کی شہرت دوردراز علاقوں تک پہنچی۔ اس وقت پیارم پیٹ(مدراس) میں ایک اہلحدیث عالم مولانا عبدالقادر قیام فرماتھے جو اس نواح میں توحیدکے معروف مبلغ تھے۔انھوں نے وفات کے وقت وصیت کی کہ ان کے بعد ان کی جگہ مولانا فقیراللہ کی خدمات حاصل کی جائیں۔چنانچہ ان کا انتقال ہواتوپیارم پیٹ کی جماعت اہلحدیث کے چندسرکردہ ارکان بنگلور پہنچےاور مولاناممدوح کو پیارم پیٹ(مدراس) لے گئے۔ مولانا نے وہاں مدرسہ احیاء الاسلام قائم کیا اوروعظ وتدریس کی خدمات سرانجام دینے لگے۔یہ مقام ضلع شمالی آرکاٹ ٹملناڈ میں عمر آباد سے فقیر اللہ کی تبلیغ توحید اور سلسلہ تدریس سے بہت متاثر ہوئے۔ مولانا فقیر اللہ جماعت مجاہدین سے وابستہ تھے اور صوبہ مدراس سے رقوم جمع کرکے سرحد پار کی جماعت مجاہدین کو بھیجا کرتے تھے۔ایک مرتبہ وہاں خود بھی گئے تھے اور انگریزی حکومت کے خلاف جماعت مجاہدین جو طریقے سے جہاد کررہی تھی، اس سے نہایت متاثر ہوئے تھے۔ مولانا فقیر اللہ سے بے شمار حضرات نےحصول علم کیا۔ان کے تلامذہ کی صحیح تعداد کا تو شاید اب کسی کو بھی علم نہیں ہوگا۔البتہ ان کے تلامذہ میں سے اپنے علاقے میں جن علمائے کرام نے زیادہ شہرت پائی ان میں مولانا سید اسماعیل (بانی جامعہ محمدیہ عربیہ رائیدرگ) مولانا فضل اللہ مدراسی (ناظم اول جامعہ دارالسلام عمر آباد، مدراس) مولانا محمد عثمان(خطیب بنگور وسکندر آباد) مولانا بشیر احمدسلیم، مولانا عبدالعلیم گڑیا تم اور مولانا عبدالقادر دکھنی کوٹی شامل ہیں۔ وعظ وتدریس کے علاوہ مولانا ممدوح تصنیفی ذوق بھی رکھتے تھے۔ان کی تصانیف میں مندرجہ ذیل کتابیں شامل ہیں؛ القول المصدوق في إثبات التشهد للمسبوق
Flag Counter