Maktaba Wahhabi

230 - 665
کی قدرت کا ملہ ملاحظہ ہو کہ عالی قدر استاذ کے درود کے ساتھ ہی شاگرد کی مالی حالت سنبھل گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے حالات بالکل بدل دیے۔ سید بدیع الدین راشدی نے تقسیم ملک سے پہلے دہلی جا کر حضرت مولانا سے استفادہ کیا تھا اور ان سے سند حدیث لی تھی۔ اب وہ پاکستان آئے تو فاضل شاگردوں نے ان کو اپنے مدرسے میں نیو سعید آباد (ضلع حیدر آباد) تشریف لانے کی دعوت دی، چنانچہ مولاناوہاں گئے اور کچھ عرصہ نیوسعید آباد ان کا قیام رہا۔ کچھ عرصہ حضرت مولانا سید محمد داؤد غزنوی کے دارالعلوم تقویۃ الاسلام (لاہور)میں اور کچھ مدت تاندلیاں والا(ضلع فیصل آباد) میں مقیم رہے۔لاہور میں ان سطور کا راقم ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔ میں اس زمانے میں ہفت روزہ ”الاعتصام“کا ایڈیٹرتھا۔ میری درخواست پر انھوں نے ”الاعتصام“کے لیے چند مضامین بھی عنایت فرمائے۔ 1942؁ءکے مارچ میں ایک سلسلے میں مجھے دہلی جانے اور وہاں چند روز رہنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس اثنا میں اپنے ایک ساتھی محمد علی (مرحوم) کی رفاقت میں حضرت مولانا ابو سعید شرف الدین دہلوی کی خدمت میں بھی حاضری دی۔یہ صبح کا وقت تھا۔انھوں نے ہمیں ناشتہ کرایا۔ وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور یہ ناشتہ ان کی سادگی کی شہادت دے رہا تھا۔حضرت مولانا معقولات پر عبور رکھتے تھے۔درسیات کے ماہر کامل۔۔۔مطالعہ بہت وسیع تھا اور اہل علم کے قدردان تھے۔ کم گو، منکسر المزاج اور نہایت متواضع۔۔۔اسلاف کا صحیح ترین نمونہ۔۔۔۔سادہ مگر صاف ستھرا لباس پہنتے تھے، وہ گوشہ نشین تھے مگر ان کی نظر آفاقی تھی۔ خاموش طبع تھے مگر ان کی خاموشی میں بے پناہ گویائی پنہاں تھی۔ وہ عمر کی بہت سی منزلیں طے کر چکے تھے ان کا ذہن جوان تھا اور قوت حافظہ مضبوط تھی۔تحقیق وکاوش کی قوتیں متحرک اور جان دار تھیں۔وہ تنہائی پسند تھے مگر اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ روایت ہے کہ وہ ہمیشہ تنگ دست رہے، لیکن ان میں کمال یہ تھا کہ اپنی تکلیف کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔ شان بے نیازی ان کا طرہ امتیاز تھا۔ اس استاذ الاساتذہ عالم دین اور ہمہ گیر اوصاف کی حامل شخصیت نے 21۔ جولائی 1961؁ء(7صفر1381؁ ھ)کو کراچی میں وفات پائی۔ ( إِنَّا للّٰه وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ)
Flag Counter