Maktaba Wahhabi

352 - 402
جنرل راقم السطور تھا۔ تمام مکاتبِ فکر پر مشتمل مرکزی مجلسِ عمل ختمِ نبوت کے قائدین اور علمائے امت نے یہ تحریک ایسی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی سے چلائی کہ سارا ملک سراپائے احتجاج بن گیا۔ تحریک کے دوران میں حکومت نے صمدانی کمیشن قائم کیا،جس نے ربوہ اسٹیشن کے سانحہ اور دیگر پیش آمدہ واقعات کی تحقیقات کیں،لیکن حالات نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ قومی اسمبلی کو انکوائری کمیٹی میں تبدیل کر دیا گیا اور مرزائی لاہوری پارٹی کے سربراہ پر جرح کی گئی،اس کے بعد قادیانی جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد پر سات روز تک جرح ہوتی رہی۔قومی اسمبلی میں صرف ارکانِ اسمبلی بحث میں حصہ لے سکتے تھے اور وہی سوال و جواب وغیرہ بھی کر سکتے تھے۔ اس اسمبلی کے ممبران مفتی محمود احمد اور مولانا شاہ احمد نورانی خاص طور پر گفتگو میں پیش پیش تھے،جنھیں راولپنڈی میں ہمارے علمائے اہلِ حدیث حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری اور مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح تیاری کرواتے اور مرزا قادیانی کی اصل تصانیف مہیا کرتے،جنھیں اگلے روز یہ ممبران اسمبلی میں حوالے کے طور پر دکھاتے۔ ایک دن مفتی محمود صاحب نے مرزا ناصر احمد کو مخاطب کر کے کہا کہ قادیان میں مرزا غلام احمد کے سامنے ایک شاعر نے ان کی تعریف کرتے ہوئے یہاں تک کہا۔نعوذ باللّٰہ! محمدؐ پھر اتر آئے ہیں قادیاں میں اور پہلے سے بڑھ کر ہیں اپنی شان میں مرزا ناصر نے حوالہ طلب کیا تو مفتی صاحب نے دوسرے روز تک کا وعدہ کیا۔چنانچہ اس حوالے کے لیے سوائے حافظ کمیر پوری صاحب کے اور کسی کے پاس
Flag Counter