Maktaba Wahhabi

349 - 402
تقریری کاوشوں کو کون نظر انداز کر سکتا ہے۔‘‘ تقسیمِ ملک کے بعد 1953ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں مولانا سید محمد داود غزنوی،مولانا محمد اسماعیل سلفی،مولانا عبدالمجید سوہدروی،علامہ محمد یوسف کلکتوی،مولانا معین الدین لکھوی،مولانا حکیم عبدالرحمان آزاد گوجرانوالہ،مولانا محمد عبداﷲ بوریوالہ،مولانا عبدالرشید صدیقی ملتان،مولانا عبیداﷲ احرار،حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری،حافظ محمد اسماعیل روپڑی اور حافظ عبدالقادر روپڑی جیسے بہت سے اس زمانے کے نامور علمائے اہلِ حدیث کا کردار سرِفہرست تھا،جس میں سے بعض نے کئی ماہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ 1954ء میں ملتان میں منعقد ہونے والی مرکزی کانفرنس کے دنوں میں مولانا محمد اسماعیل جیل میں تھے،اسی وجہ سے وہ کانفرنس میں شرکت نہ کر سکے تھے۔اسی تحریک کے دوران میں فیصل آباد میں مولانا علی محمد صمصام،مولانا احمد دین گکھڑوی اور مولانا محمد صدیق کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ اس وقت 1974ء کی تحریکِ ختمِ نبوت ہمارے پیشِ نظر ہے،جسے ہر سال ہمارے دوست یومِ فتح کے طور پر مناتے اور زبان و قلم پر بھی زور و شور سے لاتے ہیں،لیکن اسے کم ظرفی،تنگ دلی یا تجاہلِ عارفانہ کہیں کہ تحریک کے آغاز و پس منظر اور محرکین کے نام تک نہیں لیتے،کیوں کہ ان میں اہلِ حدیث علما کا تذکرہ سرِفہرست ہے۔ بلاشبہہ 1974ء کی تحریکِ ختمِ نبوت ماضی کی تمام تحریکوں کی نسبت سب سے بڑی اور نتیجہ خیز ثابت ہوئی تھی،یعنی مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا۔ یہ تحریک 29 مئی 1974ء سے شروع ہوئی۔اس دن قادیانی جماعت ربوہ کی کمانڈو تنظیم حکام الاحمدیہ کے غنڈوں نے چناب نگر ریلوے اسٹیشن سابقہ ربوہ پر نشتر
Flag Counter