Maktaba Wahhabi

278 - 402
سمجھتے ہیں کہ مسجد میں دنبے بندھے ہوئے ہیں ؟ خیال کریں کہ یہ طلبا بھی انسان ہیں۔‘‘ پھر دوسرے تیسرے روز محلے داروں نے چاولوں میں گوشت ڈال کر بھیجنا شروع کر دیا۔ مولانا محمد صدیق،مولانا محمد اسحاق چیمہ اور مولانا عبیداﷲ احرار ہم عمر،ہم اکل و شرب اور تینوں بے تکلف دوست تھے۔میرے جیسے نوجوان ان کے کارکن اور خدمت گزار ہوتے تھے۔مولوی محمد صدیق نے جب دوسری شادی کی تو مولانا عبیداﷲ احرار نے اچھا دواخانہ گول بازار کریانہ سے آدھا کلو ’’لبوب کبیر‘‘ لیا اور مولانا کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے کہا: ’’حضرت! میری طرف سے شادی کی یہ سلامی قبول فرمائیے۔‘‘ مولانا فرطِ مسرت سے جھوم گئے۔ برصغیر ہند و پاک کے علمائے اہلِ حدیث نے،جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے،اپنی زندگیوں کو قرآن و حدیث کی خدمت کے لیے وقف کیے رکھا۔یہ حضرات سراپا صالحیت،علم و کردار اور تسلیم و رضا کے لحاظ سے بلاشبہہ ذی وقار شخصیتوں کے حامل تھے،مگر ان اوصافِ حمیدہ کے ساتھ ساتھ خوش مزاج،خوش گفتار اور عوام الناس میں گھل مل جاتے تھے،ان میں کبر و نخوت یا یبوست ہر گز نہ پائی جاتی تھی۔ اب جاتے جاتے ایک اور لطیفہ سنیے جائیے: 1974ء کی تحریکِ ختمِ نبوت میں شیرانوالہ گیٹ کی مولانا احمد علی مرحوم کی مسجد مرکزی دفتر تھی،یہاں قائدینِ تحریک کا اجلاس تھا۔میں بھی مولانا معین الدین لکھوی اور میاں فضل حق کی معیت میں شریکِ اجلاس تھا۔چندے کی فراہمی اور مالی اخراجات وغیرہ کی بات آئی تو مولانا لکھوی نے امیر جماعت اسلامی
Flag Counter