Maktaba Wahhabi

264 - 402
تلاوتِ قرآنِ حکیم سے سامعین کو مسحور کر دیا تھا۔وہ خطابت و تقریر اور شعر و شاعری میں اپنے دور کے اونچے خطبا میں شمار ہوتے تھے۔شیریں و دلنشیں گفتار سے مجلس کو باغ و بہار بنا دیتے۔ مولانا گکھڑوی اور مولانا نور حسین گرجاکھی نے باہم برصغیر پاک و ہند کے بہت سے شہروں اور قصبات و دیہات کے تبلیغی سفر کیے،مناظروں میں مخالفتیں،پنجہ آزمائی اور پھر اُن میں کامیابی دونوں کا طرۂ امتیاز تھا۔مرکزی جامع اہلِ حدیث میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمانے کے بعد عصر تک ان کی خوش کلامی خوب رنگ لیے ہوئی تھی۔ نمازِ عصر کے بعد مولانا گکھڑوی اور مولانا گرجاکھی دونوں حضرات چند احباب کے ہمراہ،جن میں میرے والد علیہ الرحمہ اور خود میں بھی شامل تھا،سانگلہ ہل کے قریبی گاؤں ’’ہنجلی‘‘ عشا کے وقت پہنچے،جہاں صبح سے مولوی عمر اچھروی اور مولوی عنایت اﷲ مناظرے کے لیے للکارے مار رہے تھے۔لاہور سے حافظ عبدالقادر روپڑی اور سرگودھا سے حافظ محمد اسماعیل روپڑی دونوں بھائی تشریف لا چکے تھے۔گرد و نواح اور مضافاتی آبادیوں اور سانگلہ ہل سے ہزاروں کی تعداد میں مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ آئے ہوئے تھے۔مگر علمائے اہلِ حدیث کے پہنچتے ہی معلوم ہوا کہ دونوں بریلوی علما نامعلوم راستوں سے کھیتوں کھلیانوں اور پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے گاؤں چھوڑ گئے تھے۔ نمازِ عشا کے بعد علمائے اہلِ حدیث نے رات گئے تک خوب تقریریں کیں اور اختلافی مسائل خصوصاً اہلِ حدیث کے امتیازی مسائل پر قرآن و حدیث کی صافی تعلیمات و احکامات کی روشنی میں رات گئے تک خطابت کے جوہر دکھائے اور چیلنج کیا کہ ہم چاروں کل شام تک یہاں موجود ہیں،تمام مسائل پر بات چیت اور مناظرے
Flag Counter