Maktaba Wahhabi

260 - 402
بیرونِ ملک سے بھی چندے کے لیے سفیر حضرات آتے تو صوفی صاحب کا تعاون سرِفہرست ہوتا۔جماعت کے ایک اور عظیم ادارے جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کی تعمیرِ نو میں مولانا معین الدین لکھوی کے حکم پر صوفی صاحب اور حاجی غلام محمد صاحب کا بڑا تعاون رہا۔مقامی طور پر جامعہ سلفیہ،کلیہ دار القرآن والحدیث اور محلوں میں جاری چھوٹے پیمانوں پر طلبا و طالبات کے مدارس کے ساتھ تعاون اور غربا و مساکین کی بچیوں کی شادی اور بہت سے فلاحی کاموں میں صوفی صاحب کا مالی حصہ دوسرے اصحابِ ثروت کے لیے مشعلِ راہ ہوتا۔جماعتی دعوت و ارشاد اور تبلیغ و اشاعتِ قرآن و سنت کرنے والے نوجوانوں اور کارکنانِ اہلِ حدیث یوتھ فورس کے ساتھ بھی صوفی صاحب کی حوصلہ افزائی مثالی حیثیت رکھتی۔ جماعت کے مرحوم قائدین مولانا غزنوی،مولانا سلفی،مولانا لکھوی اور میاں فضل حق کا انھیں مکمل اعتماد حاصل رہا۔گذشتہ چند برسوں سے ملکی معاشی بدحالی اور گیس و بجلی کی کمی وغیرہ سے جہاں بہت سے صنعتی ادارے متاثر ہوئے،وہاں صوفی صاحب کی صنعت بھی رو بہ زوال ہوئی،لیکن انھوں نے بڑے حوصلے اور صبر سے مشکلات کا سامنا کیا اور کافی حد تک اﷲ کے فضل و احسان سے ان کے مالی معاملات طے پا گئے،مگر دو سال قبل ان کے پارٹنر میاں نعیم الرحمان کی وفات سے بھی بڑی کمی واقع ہوئی۔ انسان بلاشبہہ خامیوں اور خوبیوں کا مرکب ہے،لیکن صوفی صاحب کی خوبیاں اور اوصافِ حمیدہ خامیوں پر غالب نظر آتی ہیں۔صوفی صاحب عجز و انکسار اور خوش گفتار و کردار کی غیر معمولی شخصیت کے مالک تھے۔ہمیشہ نام و نمود سے گریز کرتے،جماعتی مصالحتی موقعوں پر ان کی رائے اور حکمت و دانش کی تجاویز کو بڑی وقعت و اہمیت رہتی۔سیاسی و سماجی اور کاروباری معاملات کو سلجھانے میں انھیں کمال درجہ
Flag Counter