Maktaba Wahhabi

225 - 402
تفننِ طبع کے طور پر یہاں مولانا محمد عبداﷲ صاحب کا ایک اور شگوفہ سن لیں،مولانا فرماتے ہیں کہ جب شاہ جی نے وفات پائی تو میں ان کے جنازے میں شرکت کرنے کے لیے ملتان گیا۔جنازہ گاہ میں ابھی میت نہیں آئی تھی۔لوگوں کا بڑا اِزدحام تھا۔گروہ در گروہ اور جماعتیں کی جماعتیں مختلف مقامات سے چلی آ رہی تھیں۔دیوبندی علمائے کرام کی کثرت تھی۔جو جہاں تشریف فرما تھے،ان کے ارد گرد لوگ جمع تھے۔ان علما نے سفید اونچی سی کپڑے کی ٹوپیاں پہن رکھی تھیں،جو بھی آتا،حضرت صاحب السلام علیکم کہہ کر دو زانو ہو کر بیٹھ جاتا،لیکن مجھے کوئی پوچھ نہیں رہا تھا۔اتنے میں ایک لڑکا جو چھڑی کے اوپر لٹھے کی سفید ٹوپیاں لٹکا کر فروخت کر رہا تھا،نظر آیا تو میں نے اس سے ایک روپے کی ٹوپی خرید لی،پھر پگڑی اتار کر بغل میں لے لی اور ٹوپی سر پر پہن لی۔بس پھر کیا تھا،میرے ارد گرد بھی مجمع لگ گیا اور حضرت صاحب! حضرت صاحب! کی صدائیں شروع ہو گئیں۔میں بیٹھا اپنے انداز میں گفتگو کرتا چلا جا رہا تھا اور ایک اچھی خاصی محفل جم گئی تھی۔میں نے دل میں کہا کہ ڈیڑھ صد روپے کی پگڑی پہنے مجھے کوئی لفٹ نہیں کرا رہا تھا،مگر ایک روپے کی ٹوپی سے میں بھی ’’حضرت صاحب‘‘ بن گیا!! ایک اور واقعہ سنتے جائیے! مولانا محمد صدیق زندگی کے آخری دنوں میں شدید بیمار تھے۔مولانا محمد عبداﷲ صاحب تشریف لائے اور مجھے کہا کہ مولانا محمد صدیق کی تیمار داری کے لیے چلنا ہے،چنانچہ ہم دونوں مولانا کی قیام گاہ گلبرگ سی چلے آئے۔ملاقات پر مولانا محمد صدیق نے مولانا عبداﷲ سے کہا کہ صحت کے لیے دعا کریں،آپ عالمِ دین اور بزرگ علما میں سے ہیں۔مولانا عبداﷲ کہنے لگے کہ ایک شرط پر دعا کریں گے! مولانا محمد صدیق
Flag Counter