Maktaba Wahhabi

217 - 402
زمین کھا گئی آسمان کیسے کیسے! لیکن کیا کیا جائے بقول کسے ع ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے جو دل پر گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے دراصل مخلص دوست احباب اور بزرگ راہنما زندگی کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور ان کی اس جہانِ فانی سے رخصتی نہ صرف قلب و ذہن کو ہمیشہ کے لیے مغموم کر دیتی ہے،بلکہ یادوں کی ایک بھاری گٹھڑی بھی ذہن پر لاد دیتی ہے،جس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔مولانا لکھوی علیہ الرحمۃ اعلیٰ پائے کے ایسے عالمِ دین تھے کہ ان کی میٹھی میٹھی باتیں اور ملفوظات ایسے تھے کہ جیسے منہ سے پھول جھڑتے تھے۔طہارت و پاکیزگی اور خوش لباس و خوش گفتار کے لحاظ سے مولانا محمد داود غزنوی کے بعد میں نے مولانا لکھوی کو ان اوصاف سے متصف دیکھا تھا۔ مولانا لکھوی ان چند اہلِ علم میں خاص طور پرنمایاں تھے جو مولانا سید محمد داود غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کی دعوت پر بلائے گئے۔آپ جماعت کے اس ابتدائی اجلاس 1948ء میں موجود تھے،جس میں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی داغ بیل ڈالی گئی،اور پھر سالہا سال بعد وہ دور بھی آیا کہ ان بزرگوں کے یکے بعد دیگرے دنیا سے رحلت کر جانے کے بعد قریباً اٹھارہ برس تک مولانا لکھوی مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے عہدہ جلیلہ یعنی منصبِ امارت پر فائز رہے۔آپ کو نظامتِ علیا کی ذمے داریاں ادا کرنے والے سرگرم و فعال راہنما میاں فضل حق مرحوم کی رفاقت حاصل رہی۔اس دوران میں جماعتی سطح پر کئی ایک بحران پیدا ہوئے،لیکن ان کی دینی و سیاسی بصیرت
Flag Counter