Maktaba Wahhabi

186 - 402
جب کبھی مجھے مسجد قدس چوک دالگراں لاہور جانے کا اتفاق ہوتا تو ان تینوں ہم عمر و ہم سبق ہونہار طلبا کو اپنے عظیم استاذ و مربی حضرت العلام حافظ محمد عبداﷲ روپڑی رحمہ اللہ سے درسِ حدیث لیتے ہوئے دیکھا یا جامع معقولات و منقولات حضرت حافظ محمد حسین روپڑی کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہہ کرتے پایا۔کسی مسئلے پرجب یہ تینوں آپس میں گفتگو کرتے تو مولانا عبدالسلام کیلانی کی فکر و نظر اور دلائل سے محظوظ ہو کر حافظ محمد اسماعیل روپڑی اپنے مخصوص مشفقانہ اور پیار بھرے انداز سے انھیں ‘‘بحر العلوم‘‘ کہہ کر ان کی رائے کو صائب قرار دیتے۔ جب یہ تینوں دوست جامعہ قدس سے فارغ التحصیل ہوئے تو پاکستان بھر سے سب سے پہلے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخلہ لینے والے یہی تینوں رفقا تھے،اس زمانے میں اندرونِ ملک پروازوں کا ابھی دور دورہ نہ تھا،چنانچہ لاہور ریلوے اسٹیشن سے تیزگام پر کراچی کے لیے انھیں روانہ کیا گیا،ان کے اساتذہ کرام اور بہت سے علما و طلبا کے ساتھ ان سطور کا راقم بھی ان مسرت افزا لمحات پر اسٹیشن پر موجود تھا۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز ابن باز رحمہ اللہ جیسی نابغۂ روزگار شخصیت کے فیوض و برکات اور علومِ اسلامی سے استفادے کا اعزاز انھیں حاصل رہا،جس نے ان کو گویا کندن بنا دیا۔وہاں سے فارغ ہو کر پاکستان آ کر تدریس و تصنیف اور دعوت و ارشاد کے جن میدانوں کو انھوں نے اختیار کیا،ان میں بحمد اﷲ بڑا نام پیدا کیا اور اُن سے لاتعداد تشنگانِ قرآن و حدیث نے اپنی پیاس کو بجھایا۔دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مولانا کیلانی مرحوم کے دونوں ساتھیوں ؛ حضرت حافظ ثناء اﷲ حفظہ اللہ اور حافظ عبدالرحمان مدنی حفظہ اللہ کو لمبی زندگیاں عطا فرمائے،تاکہ ان کے علم و عمل کے سرچشمے تادیر جاری رہیں۔
Flag Counter