Maktaba Wahhabi

181 - 402
انھوں نے علیحدگی اختیار کر لی۔جماعت میں ان کا اونچا مقام تھا۔مولانا مودودی جیل میں جاتے تو قائم مقام امیر وہی ہوتے۔جماعت سے الگ ہونے کا سبب یہ بنا کہ تقسیمِ ملک کے پانچ سات سال بعد مسلم لیگ حکومت نے ملک میں انتخابات کرائے،جس میں ملک بھر میں جماعت اسلامی بری طرح ناکام ہوئی۔صرف ایک سیٹ پر کھڈیاں (قصور) سے مولانا محی الدین لکھوی پنجاب اسمبلی کے ممبر بنے۔ یہاں ایک لطیفہ یاد آیا کہ مولانا مودودی نے مولانا امین احسن اصلاحی کو مخاطب کرتے ہوئے ایک بار کہا کہ ہمیں اپنی شکست تو نظر آتی ہے،مگر ایک سیٹ پر کامیابی سمجھ میں نہیں آتی۔جواب میں مولانا اصلاحی نے کہا کہ مولانا لکھوی اہلِ حدیث ہونے کی وجہ سے کامیاب ہوئے ہیں،جماعت کے امیدوار کی حیثیت سے نہیں،کیوں کہ اس حلقے میں اہلِ حدیث کی اکثریت ہے۔ جماعت کی شوریٰ کے اجلاس میں انتخابات میں ناکامی پر بحث ہوئی تو مولانا عبدالغفار حسن،حکیم عبدالرحیم اشرف،ڈاکٹر اسرار احمد اور چوہدری غلام محمد (کراچی) اور ان کے بیشتر رفقا کا موقف تھا کہ جماعت کو دس پندرہ سال الیکشن کی سیاست ترک کر کے نظامِ اسلام کی برکات کے بیان اور معاشرتی برائیوں کے خلاف کام کرنا چاہیے،مساجد و مدارس قائم کر کے تعلیمی ماحول اور سہولتیں لوگوں کو مہیا کریں،حالات کے بہتر ہونے پر الیکشن میں حصہ لینا چاہیے۔مولانا مودودی اور ان کے یمین و یسار کا موقف اس کے برعکس تھا۔ اختلافات جب شدت اختیار کر گئے تو مولانا عبدالغفار حسن کی ساری ٹیم جماعت سے الگ ہو گئی۔ہم دیکھتے ہیں کہ ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان سب حضرات کا موقف درست تھا۔آج بھی صورتِ حال یہ ہے کہ جماعت کا ملک بھر
Flag Counter