Maktaba Wahhabi

162 - 402
موصوف مقبولیتِ عامہ کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔مولانا ظفر علی خان نے مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کی خطابت سے متاثر ہو کر کہا تھا ع کانوں میں گونجتے ہیں بخاری کے زمزمے بلبل چہک رہا ہے ریاضِ رسولؐ میں بلاشبہہ ہمارے دور میں اس شعر کے مصداق مولانا شیخوپوری تھے۔راقم کو کئی مرتبہ ملک اور بیرونِ ملک تبلیغی دوروں میں ان کی رفاقت رہی۔وہ خشیت و انابت اور ذکر و فکر میں ہم سے بہت آگے تھے۔1973ء میں حج کے موقع پر سعودی عرب اور 1984ء میں برطانیہ کی سالانہ کانفرنس میں،میں ان کا ہم سفر رہا،اس دوران میں زہد و تقویٰ اور اخلاقِ کریمانہ کی بہت سی نظیریں بھلائی نہیں جا سکتیں۔ مولانا مرحوم کی خوش نوا تقریروں،حسین ملاقاتوں اور دینی مجلسوں کی خوش گوار یادیں دل و دماغ میں موجزن ہیں،لیکن انہی چند ایک ’’یادوں کی برات‘‘ پر اکتفا کرتے ہوئے کہوں گا کہ مولانا شیخوپوری مرحوم نہ صرف جماعت اہلِ حدیث بلکہ ملک و ملت کی متاعِ عزیز تھے،کیوں کہ انھیں تمام مکاتبِ فکر میں یکساں مقبولیت حاصل تھی۔وہ کبر و غرور سے دور اسلامی اخلاق و عادات اور سادگی و تواضع کا کمال مجسمہ تھے۔وہ ہر دلعزیزی اور انکساری کا ایسا نمونہ تھے کہ آج کے قحط الرجال کے دور میں یہ اوصافِ حمیدہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ان کے دلربا اور سریلے اندازِ تکلم اور خوش بیانی کو ہمارے اکثر نوجوان علما نے اپنا رکھا ہے،جن سے منبر و محراب اور جلسے اور کانفرنسیں آباد اور پررونق ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان نوخیز واعظین و مقررین کو مولانا مرحوم کی طرح اخلاص و انکسار کی بھی توفیق مرحمت فرمائے اور مرحوم کے صاحبزادگان مولانا
Flag Counter