Maktaba Wahhabi

154 - 402
انداز سے بیان فرمائے کہ آج تک اس کی مسحور کن یاد دل و دماغ میں موجزن ہے۔ بیان و ارشاد سے فارغ ہو کر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو راقم بھی آگے بڑھا اور مصافحہ کے بعد فیصل آباد کے حوالے سے جب اپنا تعارف کرایا تو الشیخ بے حد خوش ہوئے۔بڑی شفقت و محبت کا اظہار فرماتے ہوئے جامعہ سلفیہ کے اساتذہ کی خیریت اور حال احوال دریافت فرمائے۔میں ان دنوں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ کا مدیر بھی تھا،جب میں نے اپنی اس خدمت کا ذکر کیا تو انھوں نے اور زیادہ مسرت کا اظہار فرمایا اور کہا کہ مجھے آپ کے اخبار کے ذریعے پاکستان کے بہت سے دینی و سیاسی مسائل سے آگاہی ہوتی رہتی ہے۔علامہ مرحوم نے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے اس دور کے ناظمِ اعلیٰ میاں فضل حق کی خیریت خاص طور پر معلوم فرمائی اور ان کی دین کے ساتھ دلچسپی،جامعہ سلفیہ کے لیے تگ و دو اور جماعتی سرگرمیوں کا دیر تک ذکرِ خیر فرماتے رہے۔ مرحوم نابینا تھے،لیکن قرآن و سنت اور فقہی و اجتہادی علوم پر کمال دسترس رکھنے کے علاوہ اسلامی ممالک کے علما اور دینی اداروں کے منتظمین و رفقا کے پورے پورے کوائف سے بھی واقف تھے۔اکثر ممالکِ اسلامیہ کی سیاسیات اور ان کے حکمرانوں کے اندازِ حکومت وغیرہ امور پر بھی گہری سوچ بچار رکھتے اور ان کے ساتھ ملاقاتوں پر سیاسی گفتگو فرماتے تو یہ حکمران حیران ہو ہو جاتے۔ان جامع صفات کے لحاظ سے مرحوم کی سادگی اور باوقار زندگی حاملینِ علم و دانش کے لیے مشعلِ راہ تھی۔ سعودی عرب پر مرحوم کی دلکش اور عالمانہ شخصیت کی گہری چھاپ ہے،بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ ان کے فتاویٰ کو قوانین کی حیثیت دی جاتی تھی۔ظاہری بصارت سے محرومی کے باوجود اﷲ تعالیٰ نے انھیں بصیرت و فراستِ مومن کی وافر
Flag Counter