زمانہ میں خلافت کے زیادہ حقدار وہی ہیں، لیکن قتال کے معاملہ میں انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موافقت نہیں کی، ان کے پاس ایسی نصوص تھیں جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں جو یہ راہنمائی کرتی تھیں کہ جنگ و قتال سے اجتناب اس میں شریک ہونے سے بہتر ہے ان میں بعض نصوص ایسی بھی تھیں جن میں صراحۃ ًان جنگوں میں شریک ہونے سے روکا گیا ہے، اس سلسلے میں آثار وروایات معروف و مشہور ہیں ۔‘‘ (منہاج ص 221ج 3) شیخ الاسلام نے اس بارے منہاج میں مختلف مقامات پر بحث کی ہے۔ شائقین حضرات ص 180‘181، ج4 ص 243، 205‘ 219‘ 220‘ 241‘ 246 ج 2 ملاحظہ فرمائیں ۔ انہی صحابہ رضی اللہ عنہم میں محمد رضی اللہ عنہ بن مسلمہ تو وہ ہیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’لاتضرہ الفتنۃ ‘‘ فتنہ اسے نقصان نہیں دے گا۔ شیخ الاسلام لکھتے ہیں : ھذا مما استدل بہ علی أن القتال کان قتال فتنۃ بتأویل لم یکن من الجہاد الواجب ولاالمستحب‘‘ کہ اس سے استدلال کیا گیا ہے کہ وہ قتال فتنہ تھا وہ جہاد نہ واجب تھا اور نہ ہی مستجب، (منہاج ص 17ج 4) حکم رضی اللہ عنہ بن عمروغفاری سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تعاون طلب کیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کر لی کہ ’’سمعت خلیلی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کان الأمر ھکذا اتخذ سیفاً من خشب‘‘ کہ میں نے اپنے خلیل ا سے سنا ہے جب معاملہ ایسا ہو تو لکڑی کی تلوار بنا لینا (حاکم ص 442ج 3‘ السیر ص 475ج 2) عمران رضی اللہ عنہ بن حصین جنہوں نےان جنگوں میں حصہ نہیں لیا انہوں نے تو ایام فتن میں اسلحہ کی فروخت سے منع کر دیا تھا۔(بخاری مع الفتح ص 322‘323ج 4) شارح عقیدہ طحاویہ بھی لکھتے ہیں : ’’کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب وہ نصوص سنیں جن میں فتنوں سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ جانے کا حکم تھا تو انہوں نے جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لی نیز انہوں نے یہ بھی سمجھا کہ اس میں شرکت کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں |