Maktaba Wahhabi

162 - 166
اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کے باہمی اختلافات (disputes) میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کا حکم دیا گیا ہے۔اللہ کی طرف رجوع سے مراد اللہ کی کتاب کی طرف رجوع ہے جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع سے مراد ان کی ذات یا ان کی اس دنیا سے رحلت کے بعد ان کی سنت کی طرف رجوع ہے۔ اگر تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دین اسلام میں مصدرِ قانون (Source of Law) نہیں ہیں تو باہمی جھگڑوں کے حل میں ان کی طرف رجوع کا حکم کیوں دیا گیا؟ ایک اور جگہ ارشاد ہے: ﴿ فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا 65؀ (النساء: ۶۵) ’’پس آپ کے رب کی قسم! وہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں کہلائے گے جب تک کہ وہ اپنے باہمی اختلافات میں آپ سے فیصلہ نہ کروائیں۔ اور پھر جو فیصلہ آپ نے کیا، اس بارے اپنے دل میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں اور اسے دل سے تسلیم کر لیں۔‘‘20 پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دین اسلام میں اس قدر واضح آئینی اور قانونی حیثیت کے انکارکو ایک متعصبانہ رویہ (prejudiced approach) تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن کوئی علمی سوچ (academic attitude) نہیں۔ اسی طرح شاخت اپنی تحقیق میں اس اہم نکتے کو جانتے بوجھتے نظر انداز کر رہا ہے کہ احادیث کے علاوہ قرآن مجید میں بھی تو ہر شعبہ زندگی کے بارے کچھ نہ کچھ قوانین بیان ہوئے ہیں۔ اگر بالفرض، شاخت کی بات مان لی جائے کہ فقہی احادیث کا ذخیرہ علماء نے وضع کیا ہے تو قرآن مجید میں اسلامی قانون سے متعلق جو آیات یا ہدایات موجود ہیں، ان کا واضع (Author)کون ہے؟ کیا ان آیات کو بھی مسلمان فقہاء نے گھڑ لیا تھا؟ اس سے شاخت کا یہ نقطہ نظر بالکل غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اپنی امت کو کسی بھی قسم کاکوئی قانو ن نہیں دیا تھا۔ اسی طرح اپنے اس نکتہ نظر کو ثابت کرنے کے لیے کہ اسلام کی پہلی صدی میں اسلامی قانون نام کی کوئی چیزسرے سے موجودہی نہیں تھی، شاخت نے یہ تک لکھ دیا کہ
Flag Counter