حالانکہ ان کے جسم کپڑوں میں چھپے ہوتے تھے۔ اسی طرح ایک شاعر کاقول ہے: طافت أمامۃ بالرکبان آونۃ یاحسنھا من قوام ما ومنتقبا یعنی:ابھی امامہ قافلے کا چکر لگاکرگئی ہے ،اس کے جسم کی بناوٹ،کس قدر اس کے حسن کی مظہر ہے۔ بخاری ومسلم کی معروف حدیث کے مطابق ،مخنث نے ام سلمہ کے بھائی عبداللہ سے کہا تھا: اگر کل طائف فتح ہوگیا تومیں تمہیں غیلان کی بیٹی دکھاؤں گا جو چارشکنوں کے ساتھ آتی ہے اور آٹھ شکنوں کے ساتھ جاتی ہے۔[1] (یہاں بھی صرف عورت کے جسم کی بناوٹ سے اس کے حسن کو ظاہر کیاگیاہے۔) قیس العقیلی کاشعر ہے: ویبدی الحصی منھا إذا قذفت بہ من البرد أطراف البنان المخضب مدائنی نے عبداللہ بن عمرالعمری سے نقل کیا ہے،وہ فرماتے ہیں:میں حج کیلئے نکلا، دورانِ سفر ایک خوبصورت عورت کو دیکھا جوبڑی دلنشیں گفتگوکررہی تھی،میں نے اپنی اونٹنی اس کے قریب کی اورپوچھا :اے اللہ کی بندی!کیا تو حج کرنے نہیں نکلی؟تجھے کوئی اللہ کا خوف نہیں ہے؟اس عورت نے اپنے چہرے سے نقاب اٹھادیا،اس کے چہرے کا حسن، سورج کی روشنی کو ماند کررہاتھا(گویا عبداللہ بن عمر العمری کو اس عورت کے حسن کا اندازہ اس کے کلام اور جسم کی بناوٹ سے ہوا؛کیونکہ چہرے کا پردہ اس نے بعدمیں ہٹایا تھا) |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |