Maktaba Wahhabi

150 - 166
محمد الحضرمی، دیوان المبتدأ والخبر فی تاریخ العرب والبربر ومن عاصرھم من ذوی الشأن الأکبر المعروف بتاریخ ابن خلدون، دار الفکر، بیروت، ۱۹۸۸ئ، ۲؍۵۰۰۔۵۰۱ ۱۶۔ابن کثیر، اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی، البدایۃ والنھایۃ، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، ۱۹۸۸ئ، ۶؍۳۵۴ ۱۷۔أحمد بن محمد بن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۲۰۰۱ئ، ۳۷؍۲۴۶ ۱۸۔الذھبی، محمد بن أحمد بن عثمان، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، دار المعرفۃ، بیروت، ۱۹۶۳ئ، ۳؍۱۲۳۔۱۲۴ ۱۹۔تاریخی روایات کے بیان میں پانچ کتابیں ایسی ہیں جنہیں اہل سنت والجماعت نے رطب ویابس کا مجموعہ قرار دیتے ہوئے ناقابل اعتبار قرار دیا ہے۔ ان میں سے ایک کتاب امام ابن قتیبہ (متوفی ۲۷۶ھ) کی طرف منسوب ہے کہ جس کا نام’’الإمامۃ والسیاسۃ‘‘ہے۔ اہل سنت کے نزدیک اس کتاب کی نسبت امام ابن قتیبہ کی طرف ثابت نہیں ہے اور اس کے مصنف کوئی شیعہ فاضل ہیں۔ڈاکٹر عبد اللہ عسیلاننے اس موضوع پر ایک کتاب ’’الإمامۃ والسیاسۃ فی میزان التحقیق العلمی‘‘ مرتب کی ہے۔ دوسری کتاب’’نھج البلاغۃ‘‘ہے کہ جس کی نسبت حضرت علی t کی طرف کی جاتی ہے جبکہ یہ کتاب ان کی وفات کے ساڑھے تین سو سال بعد محمد بن الحسین شریف الرضی(متوفی ۴۰۶ھ) نے بغیر کسی سند کے مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں شیخین حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کی تنقیص اور اہانت موجود ہے کہ جس کے صدور کا حضرت علی t سے گمان بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ابن خلکان (متوفی ۶۸۱ھ)، امام ابن تیمیہ (متوفی ۷۲۸ھ)، امام ذہبی (متوفی ۷۴۸ھ) اور امام ابن حجر (۸۵۲ھ) نے کہا ہے کہ اس کتاب میں اکثر اقوال حضرت علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ اور افتراء ہیں۔ (ابن حجر، أحمد بن علی بن محمد، لسان المیزان، مؤسسۃ الأعلمی، بیروت، ۱۹۷۱ء، ۴؍۲۲۳) تیسری کتاب ابو الفرج اصفہانی کی ’’کتاب الأغانی‘‘ ہے۔ اس کتاب پر عراقی شاعر استاذ ولید اعظمی نے ’’السیف الیمانی فی نحر الأصفھانی صاحب الأغانی‘‘ کے نام سے شدید نقد کی ہے۔ چوتھی کتاب ’’تاریخ یعقوبی‘‘ ہے جس کا بیان گزر چکا اور پانچویں کتاب ’’مروج الذھب ومعادن الجوھر‘‘ ہے جو ’’تاریخ مسعودی‘‘ کے نام سے معروف ہے کہ جس کے مصنف کا نام علی بن الحسین المسعودی (متوفی ۳۴۶ھ) ہے ۔امام ذہبیاور امام ابن حجر  نے صاحب کتاب
Flag Counter