Maktaba Wahhabi

156 - 222
آپ نے ذکر کیا ہے وہ اسی قسم کی بشری کوتاہی کا منہ بولتاثبوت ہے،بہت سے علماء نے شیخ کی اس کتاب کی تألیف پر مذمت کی ہے،جوعورتیں چہرے کی بے پردگی کی دلدادہ ہیں،ان کے ہاں اس کتاب نے خوب خوب قبول حاصل کیا۔ افسوس بقول کسے:خالی دل سے ٹکرائی اور جگہ بناکربیٹھ گئی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ علم سے بھراہوا برتن تھے اور أعلامِ سنت میں انتہائی قدآور شخصیت تھے،لیکن اس کے باوجود،تصحیحِ احادیث میں ان سے بہت ساتساہل واقع ہوا ہے اورہر وہ شخص اس حقیقت سے آشناہے جو کسی بھی طرح علمِ حدیث سے منسلک ہے، اس کے ساتھ ساتھ شیخ رحمہ اللہ کے کچھ فقہی میلانات بھی ہیں،جن سے موافقت نہیں کی جاسکتی۔ بہرحال شیخ رحمہ اللہ معصوم تونہیں تھے اور ہرشخص کا کوئی بھی قول قابلِ قبول بھی ہوسکتا ہے اورقابلِ رد بھی،سوائے ہمارے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے۔ شیخ رحمہ اللہ نے اپنی مذکورہ کتاب کی تألیف میں اوراپنی رائے کی تقویت میں بہت محنت اورکوشش فرمائی ہے،لیکن ہر مجتہد ہمیشہ درست نہیں کہہ پاتا(بلکہ کبھی نہ کبھی کوئی غلطی کرجاتاہے) شیخ رحمہ اللہ نے آغاز میں اپنی کتاب کو چند اچھی فصول کے ساتھ متعین فرمایا ہے، جو چہرے کے پردے کی مشروعیت کو مؤکد کرتی ہیں ،مگر آگے لغزش چھپی بیٹھی تھی کہ شیخ رحمہ اللہ نے اس قول کو اختیار کرلیا جوعورت کے چہرے کے کھلا رکھنے کی اباحت پر مشتمل تھا۔ یہ شیخ رحمہ اللہ کاتفرد بھی ہے اور اس کا ایک ایسے دورمیں اظہاربھی،جو فتنوں کے طوفانوں میں گھراہواہے ۔ شیخ رحمہ اللہ نے اپنی پسندیدہ رائے کی تائید کی خاطر نصوصِ شرعیہ کا رُخ پھیردیا ہے اور اپنی کتاب کے اسلوب میں سیدھے راستے کے تعین میں ان سے خطاسرزد ہوگئی ہے۔
Flag Counter