Maktaba Wahhabi

138 - 166
نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور اگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘ اور بوسہ دینے کا پس منظر بھی یہ ہے کہ یہ جنتی پتھر ہے اور بوسہ کے ذریعے بنو آدم کے گناہ اپنے اندر سمو لیتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے بندوں کے گناہوں کی بخشش کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں: ’’نزل الحجر الأسود من الجنة، وهو أشد بیاضا من اللبن فسودته خطایا بنی آدم‘‘13 ’’حجر اسود جنت سے نازل ہوا اور اس کا رنگ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن بنو آدم کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا۔‘‘ حضرت خالد بن ولید کو حضرت ابوبکر ؓ کے دورِ خلافت میں مرتدین کی سرکوبی کے لیے بھیجا گیا۔ ان مرتدین میں سے کچھ لوگوں ایسے تھے کہ جنہوں نے حضرت خالد بن ولید ؓ کا مقابلہ کرنے کی بجائے دوبارہ اسلام قبول کرنے کو ترجیح دی۔ بروکلمان کے بقول انہی میں سے ایک مالک بن نویرہ بھی تھا جس کا دوبارہ اسلام لانا حضرت خالدرضی اللہ عنہ نے اس کی خوبصورت بیوی سے شادی کرنے کی خواہش میں قبول نہ کیا اور اسے ناحق قتل کر دیا۔14 اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مرتدین کی سرکوبی کے لیے بھیجا تو یہ ہدایت جاری کی کہ جب بھی کسی قبیلے یا قوم سے سامنا ہو تو پہلے یہ دیکھیں کہ وہ اذان دے کر نماز پڑھتے ہیں یا نہیں۔ اگر تو وہ نماز کے لیے جمع ہوتے ہوں تو ان سے زکوۃ کا سوال کریں۔ اور اگر وہ زکوۃ بھی ادا کر دیں تو ان کا رستہ چھوڑ دیں۔ جب مسلمان گھڑ سواروں کا ایک دستہ مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس آیا توان میں اس بات میں اختلاف ہو گیاکہ مالک بن نویرہ اور اس کے ساتھیوں نے اذان یا اس کا جواب دیا ہے یا نہیں۔ ابو قتادہ کاکہنا یہ تھا کہ انہوں نے اذان کہی ہے اور نماز بھی پڑھی ہے جبکہ بقیہ لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے انہیں نہ تو اذان کہتے سنا ہے اور نہ ہی نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تک جب یہ معاملہ پہنچا تو انہوں نے کہا کہ انہیں فی الحال قید کر لوبعد میں ان کا معاملہ دیکھتے ہیں۔
Flag Counter