(۳)تمام علماء اس قاعدہ کو درست قرار دیتے ہیں کہ مفاسد کے تمام راستوں اور گھاٹیوں کاسدِ باب ایک شرعی مقصد ہے،توبتلائیے کہ عورت کے چہرے کی بے پردگی میں جوفساد رونماہوسکتا ہے،اس سے بڑا اورکونسا فساد ہے،خاص طورپہ ہمارے اس وبا زدہ دورمیں ۔ اوریہ دعویٰ کہ بعض ائمہ کی طرف جو عورت کے چہرے کا اجنبی مردوں کی موجودگی میں کھلارکھنے کا جواز منسوب ہے،(جوکہ اس شرط کے ساتھ مقید ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کاخوف نہ ہو )اس کا اطلاق ہمارے زمانے اورلوگوں پر بھی ہوتا ہے،یہ ایک یقینی طورپر باطل دعویٰ ہے اور علماء کی طرف ایک غلط قول کی نسبت بھی۔ علماء کااجماع تو اس بات پر قائم ہے کہ جب فتنہ کا اندیشہ ہو توعورت پر اپنے چہرے کو ڈھانپنا فرض ہوگا،یہ قول بہت سے علماء نے بیان کیا ہے ۔ مختلف طبقات کے علماءمتقدمین میں سے اکثریت کا کہنا ہے :آج عورت کیلئے اپنے چہرہ کا پردہ کرنا واجب ہے؛کیونکہ زمانہ بدل چکا ہے اور لوگوںکی اخلاقی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے،حالانکہ ان کادور،آج کے دور کی بنسبت انتہائی خفیف الشر تھا۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تواب کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ ہمارے دورمیں بھی بہت سے علماء عورت کے چہرے اورہاتھوں کے کھلا رکھنے کے جواز کے قائل ہیں،جن میں سے سب سے بڑا نام شیخ البانی رحمہ اللہ کا ہے ،بلکہ انہوں نے تو (جلباب المرأۃ المسلمۃ) کے نام سے ایک کتاب بھی لکھ رکھی ہے،جوہرجگہ دستیاب ہے۔ تو اس بارہ میں کیاکہوگے؟ جواب:ضروری ہے کہ ہم بشری لغزشوں کا اعتراف کرتے رہیں،جس کتاب کا |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |