(۲)بعض اوقات عورت کے چہرے کا پردہ غیر ارادی طورپر مجبوراً ،اختیاری یا اضطراری حرکت سے سَرک جاتا ہے،مثلاً:اس کے ہلنے جلنے سے یا تیز ہواکے جھونکے سے وغیرہ۔اس حقیقت کاا نکار ممکن نہیں ہے ،وہی شخص انکارکرسکتا ہے جس میں کبرہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا:مجھے قطعی ناپسند ہے کہ تمہارا دوپٹہ چہرے سے گر جائے یا تمہارا کپڑا پنڈلیوں سے اٹھ جائے اور لوگ تمہارے بعض اعضاء کو دیکھ لیں،جن کا دکھائی دینا تمہیں ناپسندہے۔[1] نابغہ کا شعرہے: سقط النصیف ولم ترد إسقاطہ فتناولتہ واتقتنا بالید یعنی:اچانک اس کا دوپٹہ گرگیا ،جسے گرانے میں اس کا ارادہ شامل نہیں تھا، اس نے اسے فوراً اٹھالیااوراپنے ہاتھ کے اس عمل سے ہماری پرہیزگاری کا بھرم رکھ لیا۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے قصۂ افک بیان فرمایا ہے،اس تذکرہ کے بعد کہ ان کی آنکھ لگ گئی اور وہ سوگئیں،فرماتی ہیں:میرے پاس صفوان بن معطلرضی اللہ عنہ آیا اور مجھے دیکھ کر پہچان گیا۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:اس سے یہ بات سمجھ آرہی ہے کہ سوجانے کی وجہ سے ان کے چہرے سے چادرہٹ گئی،(چادر سے اپنے آپ کو ڈھکے رکھنے کا ذکر پہلے ہوچکا ہے) اور جب صفوان کے إنا اللّٰه وإنا إلیہ راجعون پڑھنے سے بیدارہوئیں توبہت تیزی اور جلدی کے ساتھ اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔[2] جب یہ ثابت ہوگیا (کہ عورت کے حسن کامظہر صرف اس کا چہرہ ہی نہیں ہے ، |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |