ابی بکر رضی اللہ عنہماکے ساتھ عمرہ کااحرام باندھنے کیلئے روانہ ہوئیں،فرماتی ہیں:مجھے عبدالرحمن نے اونٹ پر اپنے پیچھے سوارکرلیا،دورانِ سفر میں نے اپنے چہرے اور گردن سے چادر ہٹاکراوپرکرلی،عبدالرحمن نے سواری کی لکڑی سے میرے پاؤں پر ٹھوکرماری (یعنی چہرہ کھلا کرلینے کی وجہ سے)میں نے کہا :کیاتمہیں کوئی اجنبی مرد دکھائی دے رہا ہے؟[1] (۴)حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:اس خاتون کے چہرے کے بے پردہ ہونے کی ایک قریبی وجہ اور بھی ہوسکتی ہے،مسند ابویعلیٰ میں قوی سند کے ساتھ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کے طریق سے مروی ہے،وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے اور وہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں:میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا،ایک اعرابی اپنی بیٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کررہا تھا،اس امید سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے رشتہ زوجیت قائم فرمالیں۔ (فضل فرماتے ہیں):میں اس عورت کی طرف جھانکنے لگا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے سر کو پکڑ کردوسری طرف پھیرنے لگے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:ایسا لگتا ہے کہ اس عورت کے والد نے اپنی بیٹی کو حکم دیا ہوگا کہ تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرو ؛تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات سن کر اسے دیکھ لیں اور شاید اپنے نکاح میں لے لیں۔[2] |
Book Name | چہرے اور ہاتھوں کا پردہ |
Writer | فضیلۃ الشیخ علی بن عبداللہ النمی |
Publisher | مکتبۃ عبداللہ بن سلام لترجمۃ کتب الاسلام |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی |
Volume | ایک جلد |
Number of Pages | 222 |
Introduction | زیر نظر کتاب علی بن عبداللہ النمی کی تالیف ہے اور اس کا اردو ترجمہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب حفظہ اللہ نے کیا ہے، اس کتاب میں خواتین کے پردے کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے، اس میں ایسے تمام شبہات کا تعاقب کیا گیا ہے جن پر ان لوگوں کا اعتماد تھا جو مسلم خاتون کو بے پردگی کی دعوت دینے میں کوشاں و حریص ہیں،کتاب بنیادی طور پر دو ابواب میں منقسم ہے ، ایک باب میں ان شبہات کا جائزہ لیا گیا ہے جو چہرے کے پردے سے متعلق ہیں اور دوسرا باب ہاتھوں کے ڈھانپنے کے وجوب سے متعلق شہبات کے ازالے پر مشتمل ہے۔ |