Maktaba Wahhabi

62 - 177
ابوجہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ نے کہا: ’’أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِب؟‘‘[1] ’’کیا آپ عبد المطلب کے دین سے پھر جائیں گے؟‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے: فَلَمْ یَزَلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم یَعْرِضُہَا عَلَیْہِ، وَیَعُوْدَانِ بِتِلْکَ الْمَقَالَۃِ، حَتّٰی قَالَ أَبُوْطَالِبٍ آخِرَ مَا کَلَّمَہُمْ:’’ہُوَ عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ۔‘‘ وَأَبٰی أَنْ یَقُوْلَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ…الحدیث[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل ان پر اسے(یعنی کلمہ توحید)پیش کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی بات دہراتے رہے، یہاں تک کہ ابوطالب کے آخری الفاظ یہ تھے:’’وہ عبد المطلب کے دین پر ہے۔‘‘ اور انہوں نے [لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ] کہنے سے انکار کردیا۔… الحدیث۔ اس واقعہ سے یہ بات واضح ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعوت توحید دینے کی غرض سے اپنے چچا کے ہاں تشریف لے گئے۔ اس واقعہ میں دیگر آٹھ فوائد: ۱: مخاطب[3] کی زندگی کے آخری لمحات تک اسے دعوتِ دین دینا۔ ۲: چچا اور اسی طرح باپ، بلکہ والدین کو دعوتِ دین، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے
Flag Counter