Maktaba Wahhabi

45 - 177
۶۔ مجوسیوں کے لیے تین میں سے ایک بات:اسلام، جزیہ یا جنگ، قبول کرنا۔ ۷۔ قبولِ اسلام کے بعد نئے اور پرانے مسلمانوں کے حقوق و واجبات کا یکساں ہونا۔ ۸۔ جہاد کی صورت میں اہل اسلام کے لیے نصرتِ الٰہیہ کا وعدہ۔ ۹۔ مسلمانوں کا مطمح نظر مال و متاع یا حکومت و سلطنت کی بجائے انسانیت کو دینِ حق میں داخل کرنا۔ ۱۰۔ مسلمانوں کی بے مثل جرأت و بے باکی۔ د:مصری دربار میں عبادہ رضی اللہ عنہ کا دعوتِ دین دینا: جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بابلیون [1]کا محاصرہ کیا اور مصریوں نے محسوس کیا کہ مسلمان لڑنے اورمصر فتح کرنے میں سنجیدہ ہیں، تو شاہِ اسکندریہ مقوقس نے حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کو ایک وفد ارسال کرنے کے لیے پیغام بھیجا، تاکہ وہ ان کا موقف سن سکے۔انہوں نے دس اشخاص پر مشتمل ایک وفد اس کی طرف روانہ کیا۔ اسی وفد میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہی کو وفد کی جانب سے گفتگو کرنے کا حکم دیا گیا۔ انہوں نے مقوقس سے بات چیت کی اور مسلمانوں کی آمد کا مقصد بیان کیا۔ مقوقس نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو رومیوں کے لشکر، ان کے سازوسامان اور قوت و حشمت سے خوف زدہ کرنے کی کوشش کی۔ جواب میں عبادہ رضی اللہ عنہ نے اسے کہا: یَا ہٰذَا! لَا تُغَرَّنَ نَفْسُکَ وَلَا أَصْحَابُکَ۔ أَمَا مَا تُخَوِّفُنَا بِہٖ
Flag Counter