اور اسی مقام پر اب مسجد نمرہ ہے۔
اس حدیث میں دیگر چھ فوائد:
۱: تشبیہ کا استعمال کرنا۔[1]
۲: بات خوب واضح کرنے اور سمجھانے کے لیے ماحول سے استفادہ کرنا۔
۳: عمل کے ساتھ دعوت دینا۔[2]
۴: سامعین کو شریکِ گفتگو کرنا۔[3]
۵: گفتگو میں اشارے کا استعمال۔[4]
۶: بات کا اعادہ کرنا۔[5]
ب:عرفات اور مزدلفہ کے درمیان نصیحت:
امام بخاری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ:
’’أَنَّہُ دَفَعَ مَعَ النَّبِیِّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم یَوْمَ عَرَفَۃَ، فَسَمِعَ النَّبِيُّ صلي اللّٰهُ عليه وسلم وَرَائَہُ زَجْرًا شَدِیدًا وَضَرْبًا وَصَوْتًا لِلْإِبِلِ، فَأَشَارَ بِسَوْطِہِ إِلَیْہِمْ وَقَالَ:
’’أَیُّہَا النَّاسُ! عَلَیْکُمْ بِالسَّکِینَۃِ، فَإِنَّ الْبِرَّ لَیْسَ بِالْإِیضَاعِ۔‘‘[6]
’’بے شک وہ عرفہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ(میدانِ عرفات سے)واپس آرہے تھے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے(اونٹوں کو ہانکنے کے
|