Maktaba Wahhabi

162 - 190
علامہ أبي نے شرح حدیث میں لکھا ہے: اس قسم کا گناہ سنگین ہوگا، کیونکہ وہ [غموس] ہے اور [ غموس] مہلک کبیرہ گناہوں میں سے بھی بہت بڑے گناہوں میں شمار ہوتاہے۔علاوہ ازیں اس میں ظاہری طور پر حرام کو حلال قرار دے کر اور باطل کو حق کی شکل میں پیش کر کے شریعت کے حکم کو تبدیل کرنا بھی ہے۔[1] دو تنبیہات: اس مقام پر درج ذیل دو باتوں کی طرف توجہ دلانا شاید مناسب ہو: ا: حدیث شریف میں مسلمان کے حق کو جھوٹی قسم سے ہڑپ کرنے کی وعید کا یہ مقصود نہیں ،کہ غیر مسلم کا حق جھوٹی قسم سے ہضم کرنا جائز ہے۔ اس بار ے میں قاضی عیاض نے تحریر کیا ہے: مسلمان کا خصوصیت سے ذکر اس لیے کیا گیا ہے، کیوں کہ شریعت کے مخاطبین اور اس پر عمل کرنے والے عام طور پر مسلمان ہی ہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ،کہ غیر مسلم کا حکم اس کے برعکس ہے ، بلکہ اس بارے میں اس کا حکم وہی ہے ، جو مسلمان کا ہے۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ [2] اسی سلسلے میں علامہ طیبی لکھتے ہیں :مسلمان کے ساتھ حکم کے مخصوص کرنے کا مقصد یہ نہیں ، کہ جھوٹی قسم کے ساتھ ذمی کا حق غصب کرنادرست ہے، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے، کہ مسلمان کے حق کو غصب کرنے کی سنگینی کے پیش نظر یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے ، کیونکہ اخوت اسلامی کا تقاضا تو یہ ہے ، کہ مسلمان کے حقوق و واجبات کو ادا کیا جائے۔ اس بنا پر یہ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی، کہ غیر مسلم کے حق کو ناجائز ہڑپ کرنا اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ [3]
Flag Counter