Maktaba Wahhabi

202 - 190
کے درمیان جھوٹ سے مراد صرف وہ ہے، جو کہ واجب الذمہ حق کو ساقط نہ کرے اور ناحق کچھ لینے کا سبب نہ بنے۔ ‘‘[1] شیخ البانی رقم طراز ہیں : ’’ میں کہتا ہوں : جائز جھوٹ میں سے یہ نہیں ، کہ اس [بیوی] کے ساتھ کسی ایسی چیز کا وعدہ کرے، جس کو پورا کرنے کا اس کا ارادہ ہی نہ ہو اور نہ ہی یہ مراد ہے، کہ اس کو خوش کرنے کی خاطر یہ کہے، کہ میں نے فلاں چیز تمہارے لیے اس قیمت سے خریدی ہے، جو کہ اصل قیمت سے زیادہ ہو، کیونکہ اگر کبھی اصل صورت حال کا انکشاف ہوجائے، تو پھر یہی بات شوہر کے بارے میں بدگمانی کا سبب جاتی ہے اور یہ بات خرابی کی ہے، اصلاح کی نہیں ۔ ‘‘[2] ۵: اضطرار ی حالت میں جھوٹ کے جواز پر اتفاق: اضطراری حالت میں جھوٹ بولنے کے جائز ہونے کے بارے میں اہل علم نے اجماع امت نقل کیا ہے۔ مثال کے طور پر قاضی عیاض نے تحریر کیا ہے: ’’ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ، کہ اگر کسی شخص کے ہاں ایک آدمی چھپا ہوا ہو اور کوئی ظالم اس کو [ناحق] قتل کرنا چاہے، تو اس شخص پر واجب ہے، کہ وہ اس کے بارے میں جھوٹ بولتے ہوئے لاعلمی ظاہر کرے۔ ‘‘[3] حافظ ابن حجر کہتے ہیں : ’’ اضطراری حالت میں جھوٹ بولنے کے جواز پر اتفاق ہے، جیسے کہ ایک ظالم کسی آدمی کو [ناحق] قتل کرنا چاہے اور وہ شخص کسی دوسرے آدمی کے پاس چھپا ہوا ہو، تو اس کے لیے اس کے اپنے پاس ہونے کی نفی کرنا درست ہے، اور اس پر قسم [بھی] کھائے، تو اس کو گناہ نہ ہوگا۔ ‘‘ واللہ تعالیٰ أعلم۔[4]
Flag Counter