Maktaba Wahhabi

49 - 153
………………………………………………… ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ [بقیہ حاشیہ]اللہ تعالیٰ نے کسی نبی ولی، کسی جن اور فرشتہ اور کسی امام اور بڑے کو یہ طاقت نہیں بخشی کہ وہ جب چاہیں غیب کی خبر معلوم کرلیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے ارادہ سے جب اور جس کو جتنا چاہتا ہے اسے اتنا بتا دیتا ہے۔ اس پر کسی اور کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿وَعِنْدَہُ مَفَاتِیْحُ الْغَیْْبِ لَا یَعْلَمُہَا إِلَّا ہُوَ﴾[الانعام:۵]’’ اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ؛ اس کے علاوہ اسے کوئی نہیں جانتا۔‘‘ اور فرمایا:﴿إِنَّ اللّٰهَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الْغَیْْثَ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَداً وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِأَیِّ أَرْضٍ تَمُوْتُ إِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ﴾[لقمان:۳۴]’’ بے شک اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کی خبر، اور وہی بارش برساتا ہے، اور جانتاہے جو کچھ مادہ کے پیٹ میں ہے۔ کوئی جی یہ نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا، اور نہ ہی کوئی جی یہ بات جانتا ہے کہ وہ کس زمین میں مرے گا، بے شک اللہ تعالیٰ جاننے والے اور خبردار ہیں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:((مَنْ اَخْبَرَکَ اَنَّ مُحَمَّدًا یَعْلَمُ الْخَمْسَ الَّتِیْ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہُ عِلْمُ السَّاعَۃِ، فَقَدْ اَعْظَمَ الْفِرْیَۃَ۔))(بخاری) ’’ جس نے تجھے یہ خبر دی کہ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ پانچ باتیں جانتے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اسی کے پاس ہے قیامت کا علم، سو اس نے بہت بڑا بہتان گھڑا۔‘‘ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لو گ غیب جاننے اور کشف کا دعویٰ کرتے ہیں، اور کوئی فال وغیرہ نکال کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور اس طرح کسی کی جگہ کے جھوٹے اور خلاف شرع استخارے اپنے بنائے ہوئے طریقہ کے مطابق کرنا، یہ سب دھوکہ بازی اور سادہ لوح اورمخلص عوام کے ایمان پر ڈاکہ زنی ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ ایسے ایمان کے ڈاکوؤں سے بچ کر ہیں۔ ان لوگوں کے پاس شیطان ہوتے ہیں جو ان کوآسمانی خبریں چرا کر بتاتے ہیں ؛ اور پھر یہ ایک سچ میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں کو بتاتے اورگمراہ کرتے ہیں۔اور سادہ عوام جب ایک سچ بات سنتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ باقی بھی سچ ہوگا ؛ او ریہ پیر بڑا ہی غیب جاننے والا ہے۔ حالانکہ اس شیطان نے یہ سب کچھ شیطان سے سیکھ کر بتایا ہوتا ہے۔ علماء نے غیب کی تعریف میں لکھا ہے کہ: ’’ غیب وہ ہے جو حواس خمسہ سے براہ راست یا کسی مدد کے ذریعے معلوم نہ ہوسکے۔‘‘ مثلاً رحم کے اندر الٹرا سون کے ذریعہ دیکھ لینا کہ یہ بچہ ہے یا بچی، یہ غیب نہیں، کیونکہ حواس خمسہ سے اس کا علم حاصل ہورہا ہے۔ غیب یہ ہے کہ اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ یہ ہونے والا بچہ یا بچی بد بخت ہیں، یا نیک بخت۔ ان کی عمر کتنی ہوگی، اور ان کو روزی کہاں سے ملے گی ؟‘‘ یہ غیب ہے اور اس کی خبر کوئی نہیں لگا سکتا۔ ب:… تصرف میں شرک: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿قُلْ مَنْ بِیَدِہِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْئٍ وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْْہِ إِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُونَ o سَیَقُولُونَ لِلّٰهِ قُلْ فَأَنَّی تُسْحَرُوْنَ﴾[المومنون:۸۸،۸۹]’’ آپ ان سے پوچھئے: وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز کی بادشاہی ہے، اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اسے پناہ نہیں دے سکتا اگر تم یہ چیز جانتے ہو؟ وہ ضرور کہیں گے اللہ، پھر آپ پوچھیں: تم کہاں سحر زدہ ہوئے بھٹکتے ہو۔‘‘ کائنات میں تصرف واختیار کرنا، حکم چلانا، اپنی مرضی سے مارنا اور زندہ کرنا۔ فراخی اور تنگی اور بیماری وصحت، فتح وشکست، اقبال وادبار، مرادیں پوری کرنابلائیں ٹالنا، اور مشکل اوقات میں مدد کرنا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے۔ ج:… عبادت میں شرک:وہ کام جو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں جن کے کرنے سے اللہ تعالیٰ[حاشیہ جاری ہے]
Flag Counter