لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہتمام اور شوق پر دلالت کرتا ہے۔امام نووی رقم طراز ہیں:
’’ فَفِیْہِ الْاِہْتِمَامُ بِالْعِبَادَۃِ وَالْإِقْبَالُ عَلَیْہِ بِنَشَاطٍ ‘‘۔[1]
’’اس(حدیث)میں عبادت کے لیے اہتمام اور شوق سے اس کی طرف متوجہ ہونا ہے۔‘‘
اے اللہ کریم! ہمیں اور ہماری اولادوں کو باجماعت نماز کے لیے ایسا ہی جذبہ اور فکر عطا فرما دیجئے۔إِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔
۵:شدید لڑائی میں دشمن کے حملے کے منصوبے کے باوجود جماعت کا اہتمام:
امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت نقل کی ہے،کہ انہوں نے بیان کیا:
’’ غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم قَوْمًا مِنْ جُہَیْنَۃَ،فَقَاتَلُوْنَا قِتَالًا شَدِیْدًا،فَلَمَّا صَلَّیْنَا الظُّہْرَ،قَالَ الْمُشْرِکُوْنَ:’’ لَوْ مِلْنَا عَلَیْہِمْ مَیْلَۃً وَاحِدَۃً لَاقْتَطَعْنَاہُمْ ‘‘۔
فَأَخْبَرَ جِبْرِیْلُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم بِذٰلِکَ۔فَذَکَرَ ذٰلِکَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم،قَالَ:’’ وَقَالُوْا:’’ إِنَّہُ سَتَأْتِیْہِمْ صَلَاۃٌ ہِيَ أَحَبُّ إِلَیْہِمْ مِنَ الْأَوْلَادِ ‘‘۔
فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ،قَالَ:’’صَفَّنَا صَفَّیْنِ،وَالْمُشْرِکُوْنَ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ۔‘‘
قَالَ:’’فَکَبَّرَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم وَکَبَّرْنَا،وَرَکَعَ فَرَکَعْنَا،ثُمَّ سَجَدَ،وَسَجَدَ مَعَہُ الصَّفُّ الْأَوَّلُ۔فَلَمَّا قَامُوْا سَجَدَ الصَّفُّ الثَّانِيْ،ثُمَّ تَأَخَّرَ الصَّفُ الْأَوَّلُ،وَتَقَدَّمَ الصَّفُ
|