أَيْ قَوِیَّۃٌ تُشْبِہُ الْوَاجِبَ فِيْ الْقُوَّۃِ حَتّٰی اسْتُدِلَّ بِمُلَازَمَتِہَا عَلٰی وُجُوْدِ الْإِیْمَانِ۔وَقَالَ کَثِیْرٌ مِنَ الْمَشَایِخِ:’’ إِنَّہَا فَرِیْضَۃٌ۔‘‘
ثُمَّ مِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ:’’إِنَّہَا فَرْضُ کَفَایَۃٍ‘‘،وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُوْلُ:’’إِنَّہَا فَرْضُ عَیْنٍ۔‘‘[1]
’’یعنی(اس کا حکم)زور دار ہے۔قوت میں واجب کے مشابہ ہے،یہاں تک کہ اس کی پابندی کو ایمان کے موجود ہونے کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔بہت سے مشائخ نے کہا ہے:’’بلاشبہ وہ فرض ہے۔‘‘
پھر ان میں سے بعض نے کہا:’’یقینا وہ[فرضِ کفایہ] ہے اور ان میں سے بعض نے کہا:’’بے شک وہ[فرضِ عین] ہے۔‘‘
ح:علامہ عینی [2] کے نقل کردہ حنفی علماء کے اقوال:
علامہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَفِيْ شَرْحِ الْہِدَایَۃِ:’’ عَامَّۃُ مَشَایِخِنَا أَنَّہَا وَاجِبَۃٌ،وَقَدْ سَمَّاہَا بَعْضُ أَصْحَابِنَا سُنَّۃً مُؤَکَّدَۃً ‘‘۔
وَفِيْ الْمُفِیْدِ:’’ اَلْجَمَاعَۃُ وَاجِبَۃٌ،وَتَسْمِیَّتُہَا سُنَّۃً لِوُجُوْبِہَا بِالسُّنَّۃِ ‘‘۔
وَعَنْ شَرَفِ الْأَئِمَّۃِ وَغَیْرِہِ:’’ تَرْکُہَا بِغَیْرِ عُذْرٍ یُوْجِبُ التَّعْزِیْرَ،وَیَأْثَمُ الْجِیْرَانُ بِالسُّکُوْتِ عَنْ تَارِکِہَا ‘‘۔
وَعَنْ بَعْضِہِمْ:’’ لَا تُقْبَلُ شَہَادَتُہُ ‘‘۔
|