Maktaba Wahhabi

205 - 288
فَقَالَ:’’ ہَلْ صَلَّی النَّاسُ؟‘‘ ’’جب عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں داخل ہوئے،تو ان پر خون کے جاری رہنے کی وجہ سے غشی طاری ہوگئی۔دن روشن ہونے تک حالتِ غشی ہی میں رہے۔پھر ہوش میں آئے،تو فرمایا: ’’کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟‘‘ انہوں نے بیان کیا:’’ہم نے عرض کیا:’’ نَعَم ‘‘۔ ’’جی(ہاں)۔‘‘ انہوں نے فرمایا:’’ لَا إِسْلَامَ لِمَنْ تَرَکَ الصَّلَاۃَ ‘‘۔ ’’نماز چھوڑنے والے کا اسلام نہیں۔‘‘ اللہ اکبر! لوگوں کی باجماعت نماز کے لیے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا اہتمام کس قدر شدید تھا! انتہائی شدید زخمی ہونا اور بہت زیادہ خون بہنا ان کے اس اہتمام میں کمی پیدا نہ کرسکا۔زخموں کی شدت کی بنا پر امامت کروانے کی قدرت نہ رکھنے پر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا اور غشی کے بعد ہوش میں آنے پر سب سے پہلا سوال بھی لوگوں کی نماز کے متعلق ہی کیا۔رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ اے اللہ کریم! ہم ناکاروں کو بھی اپنی اور اپنے ماتحت لوگوں کی جماعت کا اہتمام کرنے کی نعمت سے نواز دیجئیے۔إِنَّکَ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ۔[1] ج:امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا روزانہ نمازِ فجر کے لیے لوگوں کو جگانا: امام ابن سعد نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ روایت کرتے ہوئے نقل کیا ہے: ’’ فَلَمَّا خَرَجَ مِنَ الْبَابِ نَادٰی:’’ أَیُّہَا النَّاسُ! اَلصَّلَاۃَ اَلصَّلَاۃَ‘‘۔ ’’جب وہ(اپنی رہائش گاہ کے)دروازے سے نکلے،تو انہوں نے آواز
Flag Counter