Maktaba Wahhabi

140 - 288
اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر سخت اسلوب کیوں اختیار فرماتے؟مستحب عمل کرنے اور چھوڑنے میں تو بندے کو اختیار ہوتا ہے،کرے تو ثواب،نہ کرے توکچھ گناہ نہیں۔اس کے ترک پر سرزنش،باز پُرس اور وعید نہیں ہوتی۔اسی سلسلے میں امام ابن قیم رقم طراز ہیں: ’’ فَوَجْہُ الْاِسْتِدْلَالِ مِنْہُ أَنَّہُ أَخْبَرَ بِاسْتِحْوَاذِ الشَّیْطَانِ عَلَیْہِمْ بِتَرْکِ الْجَمَاعَۃِ الَّتِيْ شِعَارُہَا الْأَذَانُ،وَإِقَامَۃُ الصَّلَاۃِ۔وَلَوْ کَانَتِ الْجَمَاعَۃُ نُدْبًا یُخَیَّرُ الرَّجُلُ بَیْنَ فِعْلِہَا وَتَرْکِہَا،لَمَا اسْتَحْوَذَ الشَّیْطَانُ عَلٰی تَارِکِہَا،وَتَارِکِ شِعَارِہَا ‘‘۔[1] ’’اس حدیث سے وجۂ استدلال یہ ہے،کہ باجماعت نماز کے چھوڑنے پر،جس کا شعار اذان اور نماز کی اقامت ہے،شیطان کے تسلّط کی خبر دی ہے۔اگر باجماعت نماز مستحب ہوتی،کہ بندے کو اسے کرنے اور چھوڑنے کا اختیار ہوتا،تو اسے اور اس کے شعار ترک کرنے پر شیطان غالب نہ ہوتا۔‘‘ ۔۹۔ جماعت چھوڑنے سے دلوں پر مہر اور غافل لوگوں میں سے ہونے کی وعید امام ابن ماجہ نے حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت نقل کی ہے،کہ ان دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس(منبر)کی لکڑیوں پر فرماتے ہوئے سنا:
Flag Counter