Maktaba Wahhabi

256 - 379
جب کہ ’’جشن میلاد‘‘ میں کروڑوں کے حساب سے جو بے مصرف پیسہ برباد کیا جاتا ہے، وہ ایک تو سراسر اسراف و تبذیر ہے جو قرآن کی رو سے اخوانِ شیاطین کا کام ہے، لیکن جواز کا فلسفہ تراشنے والے ’’مفکرینِ اسلام‘‘ کی طرف سے اس شیطانی کام کو اجرو ثواب اور نہایت فضیلت والا کام باور کرایا جاتا ہے۔ دوسرا، یہ غیر مسلموں کی نقالی ہے جو فرمانِ رسول کی رو سے سخت ناجائزاور حرام ہے۔ اسی طرح اس رسم کے دوسرے مظاہر ہیں، ان میں سے کسی کا بھی اسلامی نقطۂ نظر سے جواز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مسجد، مکان، خوراک وغیرہ یہ سب چیزیں تو ایسی ہیں جو عہد رسالت و عہد صحابہ میں سادگی کے ساتھ موجود تھیں، وسائل کی فراوانی سے یہی ہوا ہے کہ ان میں کچھ ترقی ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس ترقی کو کوئی اجروثواب کا باعث قرار نہیں دیتا۔ لیکن ’’میلاد‘‘ کی رسم تو ایسی ہے کہ عہد رسالت و ادوارِ خیر القرون میں اس کا سرے سے کوئی نام و نشان ہی نہیں ملتا، اس کی دھوم دھام کو معاشرتی ترقی سے کس طرح جوڑا جاسکتا ہے؟ بہرحال جس اعتبار سے بھی اس رسم کاجائزہ لیا جائے، اس کوجواز یا استحسان کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ سراسر اپنے اجزائے ترکیبی کے اعتبار سے ناجائز اور بدعت و منکر ہے۔ أعاذنا اللّٰہ منھا۔ ملحوظہ: یہ ثقافت والی ’’دلیل‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری کی ذہنی اُپج ہے جو قرآن کریم کی بیان کردہ حقیقت (وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ) (الأنعام: 121:6) کی مصداق ہے۔ ’’جشن میلاد‘‘ کے جواز میں پیش کیے جانے والے دیگر ’’دلائل‘‘ کی حقیقت جاننے کے لیے ملاحظہ ہو، ہماری کتاب ’’جشن ِمیلاد‘‘ کی حقیقت اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ۔‘‘
Flag Counter