Maktaba Wahhabi

257 - 379
چراغاں اورآتش بازی کا رواج اوراس کی حقیقت چراغاں کا سلسلہ بھی آج کل عام اور روز افزوں ہے۔ پہلے پہل ہندوستان میں یہ شب برات کے موقع پر ہوتا تھا اور لوگ عام طورپر اپنے گھروں کی منڈیروں پر موم بتیاں یا تیل کے چھوٹے چھوٹے دیے جلا کر چراغاں کرتے تھے، پھر شبِ معراج میں بھی یہ کام کیاجانے لگا اور پھر بڑھتے بڑھتے یہ سلسلہ ’’عید میلاد‘‘ تک دراز ہوگیا، علاوہ ازیں یہ سلسلہ موم بتیوں اور تیل کے دیووں سے بڑھ کر بجلی کے بلبوں، ٹیوبوں اور قمقموں تک پہنچ گیا، نیز منڈیروں سے نکل کر سڑکوں، گلی کوچوں، چوراہوں اور بازاروں اور پوری پوری عمارتوں حتی کہ مسجدوں تک وسیع ہوگیا۔ اور ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ بجلی کے بلبوں اور قمقموں کے ذریعے سے جو زبردست چراغاں کیا جاتا ہے، وہ بیشتر چوری کی بجلی ہوتی ہے، یعنی براہ راست واپڈا کے بجلی کے تاروں سے کُنڈا لگاکر حاصل کی جاتی ہے۔ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ حکومت نے اس چوری کی ان کو اجازت دی ہوئی ہے؟ اور اگر یہ اجازت نہیں ہے اور ہمارے خیال میں نہیں ہے تو کیا اس چوری کی بجلی سے چراغاں کرکے جشن منانے کا کوئی شرعی جواز ہے؟ اب ’’میلاد‘‘ کے موقع پر تو رنگ ونور کا یہ سیلاب کئی دنوں تک جاری رہتا ہے بلکہ انعامی مقابلے منعقد ہوتے ہیں اور جس علاقے کے گلی کوچوں یا بازار اور چوراہے کو یا نمایاں بڑی بڑی عمارتوں کو زیادہ سجایا یا برقایا (بجلی کے قمقموں سے آراستہ کیا) گیا ہوتا ہے، اسے انعام سے نوازا جاتاہے، اس طرح آرائش و زیبائش اور ’’چراغاں‘‘ پر بلامبالغہ
Flag Counter